اسلام آباد (انصار عباسی) مری میں برف باری کے سیزن اور موسم کی پیشگوئی کے حوالے سے رواں سال تیاری کیلئے چار اجلاس ہوئے تھے لیکن ان میں سے کسی ایک میں بھی وزیراعلیٰ نے شرکت کی اور نہ ہی کمشنر راولپنڈی نے۔
سرکاری ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ ان میں سے ایک اجلاس ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کے ماتحت 13؍ دسمبر کو ہوا، دو اجلاس اسسٹنٹ کمشنر مری کے ماتحت 8؍ نومبر اور 30؍ نومبر کو ہوئے جبکہ ایک اجلاس مری کے اسٹیشن کمانڈر کے ماتحت 30؍ نومبر 2021ء کو ہوا تھا۔
پنجاب ہائی ویز ڈپارٹمنٹ کے میکینکل ونگ کی سنگین غفلت یہ تھی کہ ایس او پیز کے برعکس برف ہٹانے کیلئے 16؍ مشینیں ایک ہی پوائنٹ (سنی بینک) پر لگا دی گئیں جبکہ پہلے کے اجلاسوں میں فیصلہ ہوا تھا کہ یہ مشینیں مری کے اسٹریٹجک مقامات پر لگائی جائیں گی تاکہ اہم سڑکوں کو کلیئر رکھا جا سکے۔
اس کے علاوہ، جس وقت علاقے میں اشد ضرورت تھی تو میکینکل ونگ کے اہم عہدیدار بھی مری سے غائب تھے، اور یہ لوگ راولپنڈی میں مشینیں چلا رہے تھے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ برف کو کاٹنے والی مشینوں کے ڈرائیورز اُس وقت پہنچے جب برف باری تھم چکی تھی، یہ لوگ برف باری سے قبل یا اس کے دوران نہیں پہنچے۔
برف باری کے سیزن سے قبل، متعدد درخواستوں کے باوجود ہائی ویز کنسٹرکشن ڈویژن نے سڑکیں مرمت نہیں کیں، یہی وجہ تھی کہ ٹریفک بلاک ہوا اور ہجوم لگ گیا۔
نیشنل ہائی ویز اتھارٹی نے بھی بے حسی کا مظاہرہ کیا کیونکہ ادارے نے مری ایسکپریس وے بالخصوص لوئر ٹوپہ اور پترایاٹہ سے برف ہٹانے کیلئے کوئی انتظامات نہیں کیے۔ اس سے بھی انخلاء کے مقام پر ٹریفک جام ہوگیا۔
ایکسپریس ہائی وے، مال روڈ، جھیکا گلی، کشمیر پوائنٹ، بھوربن روڈ وغیرہ پر 7؍ جنوری کی برف باری کے دوران کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
خیبر پختونخوا سے آنے والی کاریں باریاں روڈ پر اوسطاً چار سے پانچ فٹ برف میں پھنس گئیں جس کے نتیجے میں پانچ گاڑیوں میں سوار 22؍ لوگ جاں بحق ہوئے کیونکہ گاڑیوں میں ہیٹر چل رہا تھا اور آکسیجن گیس کم ہوگئی تھی۔
سڑکوں پر پھنسنے والی گاڑیوں کی مجموعی تعداد 820؍ تھی۔ راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ (ڈپٹی کمشنر اور سی پی او پولیس) نے مری کی سڑکوں اور انٹری پوائنٹس سے 55؍ ہزار گاڑیوں کو واپس بھیجا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وجہ سے مزید کئی جانیں بچ گئیں۔
پانچ دن میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ گاڑیاں مری میں داخل ہوئیں۔ کہا جاتا ہے کہ موٹر ویز پولیس نے ایکسپریس ہائی وے سے گاڑیوں کو واپس نہیں بھیجا۔ سرکاری موقف یہ ہے کہ مری کا واقعہ برفانی طوفان آنے کی وجہ سے پیش آیا۔
محکمہ موسمیات کے 5؍ جنوری کو جاری کردہ الرٹ کے مطابق ملک کے مختلف علاقوں میں شدید بارشوں اور برف باری کی پیشگوئی کی گئی تھی۔ ان علاقوں میں راولپنڈی اور مری شامل تھے اور ان کیلئے 6؍ سے 9؍ جنوری تک کیلئے الرٹ تھا۔
راولپنڈی انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ ضلعی انتظامیہ اور تمام متعلقہ ایجنسیاں، جو ایسے واقعات کیلئے تیاری کی ذمہ دار ہیں، مکمل طور پر تیار تھیں اور انہوں نے انسانی اور دیگر وسائل لگا دیے تھے کہ منصوبے کے مطابق موسم اور سیاحوں کی اتنی بڑی تعداد سے نمٹا جا سکے۔
شہر کی حدود میں داخل ہونے والے سیاحوں کی تعداد کی مانیٹرنگ کی جا رہی تھی اور تمام متعلقہ ایجنسیاں گزرتے وقت کے ساتھ اس کا ریکارڈ مرتب کر رہی تھیں۔
تاہم، سرکاری موقف کے مطابق 7؍ جنوری کو موسم سخت ہوگیا اور یہ برفانی طوفان میں بدل گیا، ایسا اس علاقے میں کبھی نہیں ہوا۔ اس صورتحال کے پیش نظر، ڈپٹی کمشنر نے فوری طور پر مری کو جانے والی تمام سڑکوں کو سیل کرنے کا حکم دیدیا۔
ڈپٹی کمشنر اور سی پی او راولپنڈی نے علاقے میں اپنی اپنی ٹیموں کے ساتھ کارروائیوں میں شرکت کی اور طوفان میں پھنسی گاڑیوں کو نکالنا شروع کیا۔ برفانی طوفان کی وجہ سے 16؍ درخت اور بجلی کے 60؍ پول شہر کی مرکزی سڑکوں پر گر گئے جس سے ٹریفک کی روانی میں تعطل آیا اور سیاح در بدر ہوگئے۔
حکام کا اصرار ہے کہ انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے ریسکیو اور ریلیف کی کوششیں پوری رات جاری رہیں۔ ان میں گاڑیوں کو نکالنا، سیاحوں کو بچانا اور بھٹکتے ہوئے لوگوں کو ریلیف فراہم کرنا شامل تھا۔
8؍ جنوری کی دوپہر تک سویلین انتظامیہ نے 80؍ فیصد تک پھنسی گاڑیوں کو نکال دیا تھا۔ موسم کے حوالے سے پیش گوئیوں کے تناظر میں انتظامیہ نے مسلح افواج سے مدد طلب کی تاکہ ریلیف سرگرمیاں جاری رہیں۔