• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی اسمبلی، حکومت، اپوزیشن پھر تکرار، صدی کا بحران کورونا نہیں عمران، مہنگائی نہ ہونے کا دعویٰ جھوٹا، بلاول، معیشت اپوزیشن نے دیوالیہ کی، اب پیداوار دگنا، حماد


اسلام آباد(ایجنسیاں)قومی اسمبلی میں فنانس ترمیمی بل پردوسرے روزبھی بحث جاری رہی ‘ اس موقع پر حکومت اوراپوزیشن میں ایک بار پھر تکرار ہوئی۔

چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ اس صدی کا بحران کورونا وائرس نہیں بلکہ عمران خان ہیں ‘حکومت کا ملک میں مہنگائی نہ ہونے کا دعویٰ جھوٹا ہے ۔

مسلم لیگ (ن)کے رکن خواجہ آصف کا کہنا تھاکہ آج بھی ارکان کو فون جارہے ہیں کہ بجٹ پر ووٹ دے دیں ‘جب آپکومارکھاکرباربار بڑے بھائی کو بلانا پڑ جائے تو معافی مانگ کر گھر چلے جائیں۔

پیپلز پارٹی کے رکن عبدالقادر پٹیل نے کہاکہ یہ منی نہیں بلکہ میگا بجٹ ہے جو لایا جارہا ہے‘مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے کہاکہ منی بجٹ کے پاکستان کے مستقبل پر سنگین اثرات پڑیں گے۔

350ارب کا ٹیکس غریب کی چیخیں نکال دے گا‘بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل )کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ ہر چیز پر ٹیکس لگ چکا‘ صرف ایک چیز پر ٹیکس نہیں لگا وہ موت ہے‘ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی صلاح الدین کا کہنا ہے کہ ہمیں لگتا ہے ہم شاید یہاں ہاتھ کھڑے کرنے کے لئے ہیں۔

اب ایسا لگتا ہے ہم اتحادی ہیں تاہم نہیں پتا کہ حکومت کیا کرنے جارہی ہے۔دوسری جانب وفاقی وزیرتوانائی حماد اظہر کا کہناہے کہ اپوزیشن جو معیشت چھوڑ گئی تھی وہ بیمار نہیں بلکہ دیوالیہ تھی‘اب پیداوار دوگنا ہوچکی ہے۔

سندھ پر یوریا اسمگلنگ کا نہیں بلکہ ذخیرہ اندوزی کا الزام ہے ۔پارلیمانی سیکرٹری کنول شوذب نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے ادوار میں ملک تباہ ہوا‘ماضی میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ آپس میں گتھم گتھا ہوتے تھے آج ساتھ بیٹھے ہیں۔

پیٹ پھاڑنے والے بھائی بھائی ہوگئے۔تفصیلات کے مطابق بدھ کو قومی اسمبلی میں منی بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نےعمران خان کو صدی کا بحران قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ منی بجٹ میں ٹیکسز کا سونامی لایا جارہا ہے،منی بجٹ لانے کے بعد آپ عوام میں نہیں جاسکیں گے، کے پی کے عوام نے صرف ٹریلر دکھایا ہے۔

عوام جو حکومت کا حشر کریں گے اس کا جلد پتہ لگ جائیگا،آئی ایم ایف سے ڈیل پاکستانی معیشت کے لیے تباہی ثابت ہوگی، عوام کو مہنگائی کا مزید بوجھ اٹھانا پڑے گا،حکومتی ارکان بھی اپنے حلقوں میں جاکر معاشی کارکردگی کا دفاع نہیں کرسکتے۔

حکومت معاشی پالیسی میں کنفیوژن کا شکار ہے۔حکومت اپوزیشن سے ملکر پالیسی بناتی تو آج تباہی نہ ہوتی ‘یہ تبدیلی نہیں تباہی ہے،اس حکومت کے دور میں پہلی مرتبہ شرح نمو منفی ہوئی۔

نئے پاکستان کا مطلب مہنگائی، بیروزگاری اور غربت ہے،ہم سمجھتے تھے وزیراعظم سائیکل پر دفتر آئیگا ،وزیراعظم خود ہیلی کاپٹر پر بنی گالا جاتے ہیں عوام کو سائیکل پر بٹھا دیا۔

شہباز شریف مفت لیپ ٹاپ دیتے تھے، آپ نے لیپ ٹاپ پر نئے ٹیکسز لگا دئیے۔عوام دشمنی اور غریب دشمنی دیکھی، یہ تو ملک دشمنی ہے۔پاکستان خطے کا مہنگا ترین ملک بن چکا ہے، انہوں نے کہاکہ خان صاحب کے پاس کیا جادو ہے کہ ایک سال حکومت میں آکر ان کی آمدن میں اضافہ ہوگیا ہے۔

پہلے تو آپ کرکٹ کے ذریعے پیسے کماتے تھے اب کون سا ذریعہ آمدن ہے ،ہم آپ سب سے حساب کتاب لیں گے۔ 

اس موقع پر حماد اظہر نے کہاکہ یہ اپنی بات کر کے کالے چوروں کی طرح بھاگ جاتے ہیں،انھوں نے اپنے ادوار میں معیشت دیوالیہ کر دی تھی،ہم آئے تو پہلے قرضے لیے کہ قرضوں کی قسطیں واپس کر سکیں،ہم نے ان کی بات مان کر پاکستان بند نہیں کیا ورنہ آج مہنگائی تین گنا ہوتی،یہ باتیں تو ایسے کررہے تھے جیسے یہ دودھ اور شہد کی نہریں بہاکر گئے تھے ۔ 

صحت سہولت کارڈ ان کو اچھا نہیں لگے گا کیونکہ یہ ٹی ٹی کا متبادل نہیں ۔ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ موجودہ حکومت کی من مانی کا سلسلہ اب مزید نہیں چل سکتا کہ اسٹیٹ بینک آپ بیچ دیں ۔

 اسٹیٹ بینک کے نام سے اسٹیٹ ہٹادیں ، یہ اب ریاست کا بینک نہیں رہا بلکہ یہ اب آئی ایم ایف کی برانچ بن گئی ہے ۔موجودہ حکومت کی نااہلی کے باعث ملک میں مہنگائی کا طوفان ہے،عوام پریشان ہیں۔

موجودہ حکومت کو لانے والے بھی آج ان کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔

اہم خبریں سے مزید