حالیہ بارشوں اور برفباری کی وجہ سے خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں مکانات کی چھتیں گرنے سمیت دیگر حادثات کے نتیجے میں بارہ افراد جاں بحق جبکہ متعدد زخمی ہوئے اور مال و املاک کو شدید نقصان پہنچا جبکہ بجلی اور گیس کا نظام درہم برہم رہا نتھیاگلی، کاغان، سوات، چترال، دیر اور دیگر علاقوں میں شدید برفباری کی وجہ سے سیاحوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بارشوں اور برفباری سے متاثرہ خاندانوں کو بروقت ریلیف فراہم کیا جائے تاکہ انکے دکھوں کا مداوا ہوسکے سانحہ مری میں خیبر پختونخوا کے علاقہ مردان سے تعلق رکھنے والے چار نوجوان بھی جاں بحق ہوئے ایسے موسمی حالات میں تمام متعلقہ اداروں کو 24 گھنٹے الرٹ رہنا چاہیے کیونکہ شدید برفباری اور بارش کے دوران ہر قسم کے حالات پیش آسکتے ہیں اور موسمی الرٹ جاری ہونے کے بعد پیشگی انتظامات کرنے چاہیے۔
ان سیاحتی مقامات میں گاڑیوں کی پارکنگ کا بہت بڑا مسئلہ ہوتا ہے اگر ان سیاحتی مقامات پر چند مقامات پر بڑے بڑے پارکنگ پلازے بنائے جائیں توحالات کافی بہتر ہوسکتے ہیں یہ حقیقت ہے کہ حکومتوں کا کام صرف سیاح گننا نہیں بلکہ ان کیلئے پیشگی انتظامات، حفاظتی اقدامات اور انہیں ہر قسم کی سہولیات فراہم کرنا ہے خیبر پختونخوا کے سیاحتی مقامات بالخصوص گلیات، ناران، سوات میں ہوٹلز مالکان کی طرف سے جس طرح سیاحوں کو لوٹا جارہا ہےاس پر افسوس کا سوا کچھ نہیں کیا جاسکتا سیاحتی مقامات کے ہوٹلز مالکان سیاحوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں لیکن حکومت اور انکے ادارے وہاں نظر نہیں آرہے ہیں۔
اکثر متعلقہ ادارے ان ہوٹلز مالکا ن سے ملے ہوئے ہیں اور حکومتی رٹ نظر ہی نہیں آرہی سیاحتی مقامات پر اربوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں لیکن اداروں کی کارکردگی غیر تسلی بخش ہے خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں امیر مقام ٗمرتضی جاوید عباسی، امیر حیدر ہوتی، عبدالجلیل جان، نجم الدین خان اور دیگر نے سانحہ مری کا ذمہ دار حکومت، انتظامیہ اور صوبائی حکومت کی نااہلی کو قرار دیکر جوڈیشل تحقیقات کا مطالبہ کردیا۔
اپوزیشن رہنماؤں کے مطابق کہ حکمرانوں نے اپنی ناکامیاں چھپانے کیلئے متاثرین پر ذمہ داری ڈال دی ہے وزیر اعظم کی طرف سے سانحہ میں مرنے والوں کو ذمہ دار قراردینا بے حسی کی انتہا ہے حکومت مری اور گلیات میں ٹریفک انتظامات کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔
صوبہ خیبرپختونخوا میں بروقت امدادی کارروائیاں شروع نہیں کی جاسکیں، متعلقہ انتظامیہ غائب رہی سیاحوں اور مقامی لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ میڈیا پر خبریں چلنے لگیں تو وزیر اعلی اسکی ٹیم اور جی ڈی اے سمیت دیگر متعلقہ اضلاع کی انتظامیہ نے عملی اقدامات کی بجائے بیانات جاری کرنا شروع کئےجبکہ عملی اقدامات انتہائی تاخیر سے شروع کئے گئے جس کی وجہ سے سیاحوں کو شدید ذہنی کرب سے گزرنا پڑا اپوزیشن رہنمائوں کے مطابق مری واقعہ انتظامی نااہلی اور مجرمانہ غفلت کا دردناک واقعہ ہے۔
یہ ہلاکتیں نہیں، شہریوں کے قتل کے مترداف ہےعدالتی تحقیقات میں وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم کو بھی پیش کیا جائے جو بھی مجرم ہو اسے عبرتناک سزا دی جائے بلدیاتی انتخات کے پہلے مرحلے میں حکمران جماعت تحریک انصاف کی ناکامی کے بعد وفاقی وزیر پرویز خٹک کو تحریک انصاف کا صوبائی صدر بنانےکے بعد پرویز خٹک نے پارٹی کو منظم کرنے اور تنظیم سازی کے سلسلے میں صوبہ بھر کے دورے شروع کردیئے ہیں۔
وزیر دفاع پرویز خٹک کا مانسہرہ کنونشن سے خطاب کے دوران کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں کامیابی حاصل نہ ہوئی تو اگلے الیکشن میں حکومت بھول جائیں خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کا مقابلہ صرف مولانا کے ساتھ ہے باقی پارٹیاں تو ختم ہوچکی ہیں وزیر دفاع پرویز خٹک ایبٹ آباد اور مانسہرہ میں ورکرز کنونشن میں شریک کچھ کارکنوں کی جانب سے مہنگائی کے خلاف نعرے لگانے پر غصے میں آگئے اور نعرے لگانے والوں کو خبردار کیا کہ پارٹی میں نفاق کو برداشت نہیں کیا جائے گا، صرف عمران خان کا نعرہ لگائیں پارٹی میں جو نفاق کرے گا میں اسکو نکال دوں گا، مہنگائی پوری دنیا میں ہے جس کی وجہ سے عمران خان بھی بہت تکلیف میں ہیں ہلڑ بازی کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف کا ورکر کنونشن شدید ہلڑ بازی اور بدانتظامی کی نذر ہوگیا ورکر کنونشن میں گو خٹک گو کے نعرے بھی لگے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے پارٹی کارکنوں پر زور دیکر کہا ہے کہ باہمی اتفاق و اتحاد سے صوبے میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ جیت کر دکھانا ہے ان انتخابات کے پہلے مرحلے میں جو غلطیاں ہوئی ہیں دوسرے مرحلے میں وہ نہیں دہرائیں گے اور جو غلطیاں ہوئی ہیں ان سے سیکھیں گےکارکنان اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔
یہاں پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اگر مہنگائی اور بے روزگاری کی شرح اسی طرح رہی تو بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں بھی حکمران جماعت کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہےخیبر پختونخوا 2020 کی طرح 2021 میں بھی دہشت گردی کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ رہا خیبر پختونخوا میں ہونے والے حملوں میں سے 71 فیصد حملے سکیورٹی فورسز پر ہوئے 111 کل واقعات میں سے 53 صرف وزیرستان میں ہوئے، جن میں مجموعی طور پر 169 افراد جاں بحق ہوئے2021 ء میں پولیو ٹیموں کے علاوہ زیادہ تر سیکورٹی فورسز بالخصوص پولیس فورس کو نشانہ بنایا گیا اور یہ واقعات خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں ہوئے ہیں۔
پولیس رپورٹ کے مطابق کہ گزشتہ سال فرائض کی ادائیگی کے دوران 48 پولیس اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا جبکہ 44 زخمی ہوئے ہیں ایک اوررپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا کے 26 اضلاع ایسے ہیں جہاں پر پولیس کی کئی چیک پوسٹیں، چوکیاں غیر محفوظ ہونے کی نشاندہی کی گئی ہے رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا گزشتہ عشرے سے دہشتگردی کا شکار چلا آرہا ہے جس میں اب تک سینکڑوں کی تعداد سرکاری املاک اور اہلکار مختلف حملوں میں شہید ہوئے ہیں لیکن جو رپورٹ صوبائی اسمبلی میں پیش کی گئی ہے۔
اس رپورٹ میں پشاور سے لیکر کوہستان اور مہمند تک 26 اضلاع میں ایسے پولیس پوسٹ اور چوکیوں کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں پر چار دیواری موجود نہیں اور اہلکار کھلے آسمان تلے ہر قسم کے خطرات کا مقابلہ کر رہے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے تاحال اس حوالے سے کسی قسم کے ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے خیبر پختونخوا اسمبلی نے گزشہ تین سال کے عرصے میں 137 بل پاس کیے جو کہ ایک ریکارڈ ہے اسمبلی نے خواتین کے حقوق کے لیے قانون سازی کی جس میں جائیداد میں حقوق اور گھریلو تشدد کے قوانین کافی اہمیت کے حامل ہیں خیبرپختونخوا اسمبلی وہ واحد اسمبلی ہے جس میں گزشتہ سال خواتین اراکینِ اسمبلی کے لیے بےبی ڈے کیئر سنٹر بھی بنایا گیا ہے۔
تاہم دیگر سرکاری دفاتر میں خواتین ملازمین کیلئے بے بی ڈے کیئر سنٹر کے ساتھ ساتھ خواتین ملازمین کیلئے علیحدہ واش رومز اور خواتین کیلئے نماز کی جگہ کے فیصلوں پر عمل درآمد نہیں ہوسکا وویمن کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں وزیر اعلی سیکرٹریٹ سے اس حوالے سے انتظامات یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی تھی لیکن تاحال اس پر کسی قسم کا عمل درآمد نہیں کیا گیا تاہم سول سیکرٹریٹ اور صوبائی اسمبلی سیکرٹریٹ کے علاوہ کسی بھی سرکار ی دفتر میں ملازمت پیشہ خواتین کیلئے تاحال کوئی سہولت موجود نہیں جس کی وجہ سے خواتین ملازمین کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔