• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

پنجاب حکومت: بلدیاتی معرکہ جیتنا چیلنج

پنجاب لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2021 کے تحت بلدیاتی الیکشن ای وی ایم کے ذریعے کروانے کا فیصلہ کیاگیاہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری بیان کے مطابق الیکشن کمیشن نے ای وی ایم کے استعمال پر صوبائی حکومت پنجاب سے کہا کہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے دوران کسی ٹیکنالوجی بشمول ای وی ایم پر الیکشن کمیشن کا کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اگر وفاقی یا صوبائی حکومت ان مشینوں کو خود بنائے، توالیکشن کمیشن ای وی ایم کا استعمال کرنے کو تیار ہے۔ 

صوبائی حکومت کو یہ بھی بتایا گیا کہ صوبے میں بلدیاتی انتخابات کے دوران دو لاکھ 50 ہزار مشینیں درکار ہوں گی۔ الیکشن کمیشن نے مشینوں کی خریداری مارکیٹ سے کرنی ہے تو تمام قواعد وضوابط اور پیپرا رولز کے مطابق خریداری کی جائے گی۔بلدیاتی انتخابات لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2021 پر کروائے جائیں گے۔ بلدیاتی آرڈیننس کے اجراء کے بعد الیکشن کمیشن حد بندیوں کا آغاز کر دے گا ۔

ورکنگ گروپ نے الیکشن پر آنے والے اخراجات اور طریقہ کار کے حوالے سے کام کا آغاز کر دیا ہے۔ تحصیل کونسلز، میونسپل کارپوریشنز، میونسپل کمیٹیوں اور ٹاؤن کمیٹیوں کا نظام ختم ہوگیا ہے جبکہ میٹرو پولیٹن کارپوریشنز اور ضلع کونسل کا نظام نافذ کر دیا گیاہے۔ میٹرو پولیٹن کارپوریشن لاہور کے سربراہ لارڈ میئرجبکہ راولپنڈی کے سربراہ سٹی میئر کہلائیں گے،الیکشن کمیشن یونین کونسلوں اور ولیج کونسلوں کی ازسر نوحلقہ بندیاں کرے گا اور حلقہ بندیوں کے حتمی نوٹیفکیشن کے 45 دن بعد پولنگ ہو گی، جنوری کے آخر تک بلدیاتی الیکشن کا شیڈول جاری کر دیا جائے گا۔ 

بلدیاتی الیکشن جماعتی بنیادوں پر ہوں گے، کوئی امیدوار آزاد حیثیت سے الیکشن نہیں لڑ سکتا ،تمام پارٹیاں ہر کیٹیگری کے لئے متعین نشستوں کی تعداد سے کم امیدوار نامزد نہیں کر سکتیں البتہ نشستوں کی کل تعداد سے زیادہ کورنگ امیدوار نامزد کئے جا سکتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے نامزد امیدواروں کی فہرست کاغذاتِ نامزدگی جمع کروانے کی مقررہ تاریخ تک جمع کروانے کی پابند ہوں گی، جن میں بعد ازاں کوئی ردو بدل نہیں کیا جا سکے گا۔ الیکشن میں میئر، ڈپٹی میئر، چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین کے امیدوار کی عمر کم از کم 25 سال، دیگر تمام کونسلر کے امیدواروں کی عمر کم از کم 21 سال جبکہ یوتھ کونسلر کے امیدوار کی عمر 18 سال سے 32 سال کے درمیان ہونا لازمی ہے۔ 

اسی طرح میئر یا چیئرمین کے امیدوار کی کم از کم تعلیم انٹرمیڈیٹ ہونا لازمی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو شکست کے بعد اب پنجاب میں بھی بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں تو جاری ہیں مگر پی ٹی آئی کے حوالے سے اب یہ سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ آیا وہ پنجاب میں یہ رسک لے گی یا نہیں۔

اس حوالے سے وزیر اعظم پاکستان عمران کی بھرپور توجہ پنجاب اور خاص طور پر لاہور پرمرکوز ہے ۔یاد رہے حکمران جماعت تحریک انصاف کے منشور میں مقامی حکومتوں کے ذریعے اختیارات نچلی سطح تک منتقل کرنا بھی شامل ہے۔ سابقہ دور میں بھی ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں کامیاب نمائندوں نے عدالتوں کے ذریعے اختیارات لینے کی کوشش جاری رکھی۔ اس نظام میں تبدیلی کے بعد خیبر پختونخوا میں انتخابات کرائے گئے جن میں پی ٹی آئی پر جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان کی جماعت نے سبقت حاصل کی۔تاہم قابل ذکر بات یہ ہے کہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات جیتنے کے لیے سخت محنت کرنا پڑے گی۔ 

سب سے بڑا چیلنج پارٹی ورکرز کی مرضی سے ٹکٹوں کی تقسیم کاہے۔سیاسی بساط پرگذشتہ دنوں سب سے اہم بات یہ ہوئی کہ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور پارٹی رہنما پرویز رشید کی ایک اور آڈیوٹیپ لیک ہوئی، اس پرحکومت کی طرف سے (ن) لیگ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایاگیا ۔آڈیوٹیپ میں دونوں لیگی رہنما مبینہ طور پر کچھ صحافیوں کی ’جانبداری‘ کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔

لاہور اور گردونواح میں موسلا دھار بارش کی وجہ سے سردی کی شدت میں اضافہ ہوگیا ہے۔جب بارش ہوتی ہے توشہریوں کو پانی کھڑاہونے کی وجہ سے مشکلات کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔ وزیر اعلی پنجاب نےاگرچہ جلد از جلد نکاسی آب کا حکم دیا تھا لیکن نشیبی علاقے بارش کی وجہ سے کھڑے ہونے والے پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اس پانی کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک کی روانی بھی متاثر ہوتی ہے۔ مری میں شدید برف باری اور رش میں اپنی گاڑیوں میں پھنس کر 23 افراد کی ہلاکت کے بعد ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی۔

یہ کسی بڑ ے سانحے سے کم نہیں تھا۔ سوال یہ ہے کہ مری کی صورتحال کو مانیٹر کرنے کے لیے قائم کنٹرول روم کے ذرائع کے مطابق شہر میں سوا لاکھ سے زائد گاڑیاں داخل ہوئیں اور لوگ گاڑیاں سڑکوں پر کھڑی کرکے چلے گئے۔مری میں بجلی کی فراہمی بند رہی، گاڑیاں سڑکوں پر ہونےکی وجہ سے امدادی سرگرمیوں میں مشکلات کا سامنا رہا، وہاں پر لوگوں سے رابطہ کرنے کا بھی کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ 

اس بارے میں لوگوں میں بھی آگہی کی ضرورت ہے کیونکہ یہ سب پنجاب حکومت پر بھی سوالیہ نشان ہے کہ مری میں برفباری شروع ہوتے ہی ہزاروں سیاح سیاحتی مقام کی سیر کو پہنچ گئے تھے لیکن شدید برفباری کے باعث سڑکوں پر بدترین ٹریفک جام ہو گئی اور خواتین اور بچوں سمیت سیاحوں کی بڑی تعداد نے رات خون جما دینے والی سردی میں کھلے آسمان تلے گاڑیوں میں ہی گزاری اور یہی اموات کی وجہ بنا، اس ساری صورتحال سے نمٹنے کے لئےکوئی انتظام نہ تھا، یہ سب وہ سوالات ہیں جس کا جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔

سیاسی صورتحال میں نشیب وفراز کا تذکرہ کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے تعلیمی شعبے کی طرف بھی نظر دوڑائی جائے تو وہاں پربھی ابتری ہی ہے۔لاہور بورڈ ایک بڑا بورڈ ہے ،وہاں کےمسائل حل ہونے کے لئے اعلی عہدیدار کی نظر کرم کے منتظر ہیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ملک ہو یا کوئی بھی شعبہ جب تک اس کے مسائل کا باریک بینی سے جائزہ نہیں لیاجائے گا ان کاحل نہیں تلاش کیاجاسکتا، صرف بیوروکریسی کے چہرے بدلنے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ اس کے لئے مسئلے کی جڑ تک پہنچ کر اس کو ختم کرنا ضروری ہوتا ہے۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید