• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے نوجوان: آدھے تیتر آدھے بٹیر بن کر رہ گئے

شہلا خضر

  یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ دنیا کی ترقی میں نو جوانوں نے ایک اہم کردار اداکیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نوجوانوں کے مضبوط عزائم ان زنجیروں کو کاٹ سکتے ہیں جو بڑوں کی راہ کی رکاوٹ ہوتی ہیں لیکن آ ج کے نوجوان ،جن مسائل سے دوچار ہیں ‘ و ہ نہایت ہی گمبھیر اور پیچیدہ ہیں ۔ ان کے سامنے فکری تضادات نے کوئی راستہ اور کوئی واضح منزل نہیں چھوڑی ۔ طرح طرح کے متضاد نظریات نے انہیں ہر طرف سے گھیر رکھا ہے اور نوجوان ان کے درمیان حیرانی کے عالم میں کھڑا ہے۔وہ یہ فیصلہ نہیں کر پارہاکہ ان میں سے کس کا ساتھ دیں اور کسے مسترد کرے؟ اس کی شخصیت آدھا تیتر آدھابٹیربن کر رہ گئی ہے۔

اسے نہ تو اپنے دینی شعائر کا مکمل ادراک ہے اور نہ ہی وہ فہم جسے بروئے کار لا کر عصر حاضر کے چیلینجز کا سامنا کر پائے ۔اس وقت پوری دنیا اخلاقی بحران سے گذر رہی ہے ۔ نسلَ نو بھی اسی بحران کے شکار ہے ۔اس اخلاقی زوال کی وجہ سے کسی پراعتماد نہیں رہا ۔ ہرشخص دوسرے سے خوف محسوس کرتا ہے ۔ نوجوان بھی اسی بے اعتمادی کی فضاء میں جی رہے ہیں ۔ انہیں نہ تو کسی کی دیانت ،امانت ، عہد وپیمان اور خلوص پر اعتماد ہے اور نہ کوئی دوسرا ان پر اعتماد کرنے کے لئے تیار ہے۔

ایک جوہری ہیروں کی تراش خراش میں جتنا احتیاط سے کام لیتاہے، قوم کو مستقبل کے ان ہیروں کے سنوارنے میں اس سے کہیں زیادہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہے، جو اب تک کوئی نہیں کر رہا،جبکہ سب جانتے ہیں کہ نوجوانوں کی بہتری ہی میں قوم کی بہتری ہے۔ نسل نو کسی بھی قوم کی نظریاتی اور عملی طور محافظ ہوتی ہے ۔ 

اگر کسی قوم کے نوجوان نظریاتی انتشار و خلل کا شکار ہو جائیں تو یہ اس قوم کے لیے ذہنی غلامی کا دور ہوتا ہے۔ اگر نوجوان اپنی ثقافت اور روایات کو پوری مضبوطی سے تھام لیں تو اس قوم کی روایات اور ثقافت کبھی مردہ نہیں ہوتیں۔ لیکن موجودہ دور میں یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ نوجوانوں کے شب و روز گزارنے کا انداز روز بروز مغربی طرز میں ڈھل رہا ہے،سب سے زیادہ مغرب کی ثقافتی یلغار نے ہماری نسل نو کو متاثر کیا ہے۔وہ اس کے بھنور میں پھنستے چلے جارہے ہیں۔ مستقبل کے معمار جدت اور شخصی آزادی کے نام پر بیہودہ فیشن اختیار کر رہے ہیں ۔ 

اپنے مستقبل کی طرف توجہ دینے کے بجائے فیشن ٹرینڈز کو اپنانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ یہ اپنی تہذب و تمدن سے سراسر نا انصافی ہے۔ عصر حاضر میں جدیدٹیکنالوجی کا سہارا مل جانے کے بعد ثقافتی یلغار اور بھی خطرناک ہو چکی ہے۔ نوجوانوں کے ذہن و دل اور فکر و نظر تک رسائی کے سیکڑوں اطلاعاتی راستے اور وسائل موجود ہیں، مگر نوجوان نہ صرف یہ کہ اپنی روایات اور ثقافت کو فراموش اورمغربی روایت کا اثر قبول کر رہے ہیں ۔

یہ وہ سوچیں کہ کیا وہ صحیح کر رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اپنی ثقافتی دولت اور جمع پونجی سے استفادہ کریں، اپنی شخصیت اور اپنی خود مختاری کو اہمیت دیں۔ دوسروں کی تقلید اور اغیار کے آئیڈیل کی نقل نہ کریں۔ اپنی پہچان خود بنیں، یہی وہ وقت ہے جب نوجوان اپنی ثقافت، تہذیب، اقدار اور اسلامی حدود و قیود کا خیال رکھیں۔ تعلیمی ادارے بھی کو نوجوانوں کے ذہنوں میں اپنی اقدار اُجاگر کریں کیونکہ وہ اس وقت کشمکش کا شکار ہیں۔

یہ کہا توجاتا ہے کہ توانائی اور انرجی نوجوانوں کے اندر بھری ہوتی ہے، وہ اس کے ذریعے سے کرشماتی کام انجام دے سکتے ہیں، ان میں پہاڑوں کو ان کی جگہ سے ہٹا دینے کی صلاحیت ہوتی ہے لیکن ان کی اس توانائی اور انرجی سے استفادہ بھی تو نہیں کیا جا رہا ، انہیں لگتا ہے کہ وہ عبث اور بے کار گھوم رہے ہیں۔ 

گزشتہ کچھ دہائیوں سے نوجوان نسل خصوصاً طلباء و طالبات کے مابین یہ سوچ تیزی سےپروان چڑھی ہےکہ ملک میں ان کا مستقبل محفوظ نہیں ۔ تعلیمی، مذہبی، معاشرتی، معاشی، اور ذہنی طور پر ان کے لئے مواقع محدود ہیں،ان کے لئے کسی بھی سطح پر بھی سنجیدگی سے نہیں سوچا جا رہا۔ 

نتیجے کے طور پر بہترین اذہان ملک سے باہر جانے میں ہی بھلائی سمجھنے لگے ہیں۔ نظر انداز کئے جانے کا گلہ نسل نوکو بہت ہے۔ اُن کے حقیقی مسائل کو نظرانداز کرکے ارباب اختیار یہ فراموش کیے بیٹھے ہیں کہ، سفر نعروں سے نہیں، کردار اور عمل سے کٹتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کے تعلیم، ' صحت اور روزگار جیسے فوری حل طلب مسائل کو بنیادی ترجیح دی جائے۔ سنجیدہ اقدامات اٹھائےاور تعلیمی بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔ _جس ملک میں بھی نوجوانوں کے مسائل پر کما حقہ توجہ دی جائے گی وہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔

نوجوا ن بھی ملی یکجہتی، اتحاد، اصلاح اور بہتری کے قیام دوام کے لیے محنت کریں، اپنے آپ کو انتشار سے دور رکھیں، اپنے اندر تلاش و جستجو، امید و بلند ہمتی، خود اعتمادی کے جذبے اور اس خیال کو کہ ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں تقویت پہنچائیں۔ جوانی کی خاص چمک دمک اور قوت ہوتی ہے، اس لیے نرم دل، نرم مزاج اور اسلام کی روشنی میں اپنے آپ کو رنگ کر اچھے اخلاق کے مالک بنیں اور وقت کا بہترین استعمال کریں، وقت کو منظم کئے بغیر ممکن نہیں ہے۔ تعلیم وتحقیق اور مطالعے سے شغف رکھنے والےنوجوان سخت کوشی اور دل جمعی سے کام کرنے کی عادت ڈالیں۔