• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تعلیم انسان میں شعور پیدا کرتی ہے۔ تعلیم کی بدولت ہی انسان اچھے برے کی تمیز کر سکتا ہے یعنی تعلیم ہی مسائل کا حل ہے لیکن ہمارا تعلیمی نظام ہمارے مسائل حل کرنے کی بجائے مسائل بڑھا رہا ہے۔ نوجوانوں کی حالت ہر گزرتے دن کے ساتھ بد سے بدتر ہو رہی ہے۔ جس سماج میں نوجوان نسل کے سامنے کوئی راستہ نہ ہو وہ مایوسی کی دلدل میں گری جا رہی ہو تو اس کا مستقبل بھی خطرے میں ہوتا ہے۔

وہ لوگ جن پر اس ملک کے نظام تعلیم کی بہتری کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، ان پر لازم ہے کہ وہ ملک کے مستقبل کے بارے میں سوچیں اورفیصلہ کریںکہ ہم اپنے ملک کو کیسا مستقبل دینا چاہتے ہیں؟ آج اگر اس مسئلے پر سوچنا شروع نہیں کیا تو آنے والا وقت بہت سنگین مسائل لے کر آئے گا۔ وہ مسائل جن کو حل کرنا شاید کسی کے بس نہ ہو۔ اسی تناظر میں دو ہونہار طالب علموں کی بپتا ، جو عملی زندگی میں ناکامی کے بعد اپنے اُستاد کو سنائی نذرِ قارئین ہے۔

پچھلے ہفتے چھٹی کے روز دو شاگردوں کا فون آیا کہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں ۔ یہ میرے وہ شاگرد تھے ،جنہوں نے چھ سال قبل میٹرک میں ٹاپ کیا تھا اور پورے شہر اور مضافات میں ان ہونہار طلبا ءکا چرچا ہوا تھا۔ انہیں مشہور کالجوں کی طرف سے مفت تعلیم کی پیش کش ہوئی، انہوں نے من پسند کالج کا انتخاب کرکے اس میں داخلہ لے لیا ، اگلے چار سالوں میں ان کی کامیابی کا تناسب بہت اچھا رہا اور گریڈ میں بھی استحکام رہا ۔ اُس وقت ان کو یوں لگا جیسے دنیا فتح کر لیں گے ، ان کے گریڈ ان کی کامیابی کی دلیل اور گارنٹی ہیں ۔ ان کی میڑک کی سند ان کی اعلیٰ ملازمت پر قبولیت کی سند ہے ۔۔۔ لیکن نتائج اس کے برعکس رہے۔

وہ جس بڑے ادارے میں انٹرویو دینے گئے بہت کم نمبروں سے ٹیسٹ میں پاس ہوسکے ، تحریری ٹیسٹ پاس کر بھی لیا تو انٹرویو میں ناکام ہو گئے ، پینل کے سوالات ان کے سر سے گزر گئے ، اسناد میں اے پلس گریڈ دھرے کے دھرے رہ گئے ، شیلف میں رکھی ٹرافی ان کے کسی کام نہ آئی ۔

آج وہ مجھےکچھ سنانے آئے تھے اور میں خاموشی سے دونوں کی باتیں سن رہا تھا ۔ دونوں کے چہروں پر مایوسی اور انجانا سا عدم تحفظ تھا ، چائے کا کپ رکھ کر ایک نے فرش کو دیکھتے ہوئے آخری جملہ بولا " سر، تعلیمی نظام نے بہت ظلم کیا ہے ہم پر ۔۔۔ "

میں نے مسکرا کر کہا " بےروزگاری تو ہمارا بہت پرانا مسئلہ ہے شہزادے، میرٹ نہیں دیکھا جاتا" ۔

" نہیںسر ! " دوسرا تڑپ کر بولا " ہمیں بیروزگاری نے نہیں ، ہماری ڈگریوں نے مارا ہے ، ہمیں وہ کچھ سکھایا ہی نہیں گیا جو مستقبل میں ہمارے کام آتا ‘‘۔میں ایک بار پھر غور سے ان کی باتیں سننے لگا ۔ آج ان کے بولنے کی باری تھی۔

" ہمیں اعتماد نہیں سکھایا گیا ، انگریزی میں پورے نمبر دے کر انگریزی بولنا نہیں سکھایا گیا ، حساب میں سو بٹہ سو حاصل کر کے بھی اپنی ہی زمین کا رقبہ نہیں نکال سکتے ، اردو میں پورے نمبر لے کر بھی ہم عرضی نہیں لکھ سکتے ، میرٹ ہمارے قدموں کی دھول ہے لیکن نالج ہمارے پاس صفر ہے ، آپ نے نمبروں کی مشینیں بنائی ہیں، جینیس نہیں ۔" آواز اس کے گلے میں رندھ گئی ۔

میرے پاس کوئی جواب نہ تھا ۔

" میرے ابو کے زمانے میں ڈاکٹری کامیرٹ78 فیصد تھا، اب 91فی صدپر بھی پاکستان کے سب سے تھکے ہوئے کالج میں بھی داخلہ نہیں ملتا۔"

اس کے چہرے پر تھکن ہی تھکن تھی ، لگتا تھا نوکریاں ہمارے قدموں میں گریں گی، آج جس کمپنی میں جاتے ہیں وہاں پورے نمبر لینے والے سیکڑوں کی تعداد میں کھڑے ہوتے ہیں لیکن ٹیسٹ اور انٹرویو میں سب رہ جاتے ہیں ، کہاں گئے وہ نمبر؟ "

وہ اپنا کتھاسنا رہا تھا یا سوال کر رہا تھا ۔۔۔ میرے پاس کوئی جواب نہ تھا ۔ ہم نمبروں کی مشینیں ہی تو بنا رہے ہیں ، میرے نظروں میں اس سال کوویڈ میں میٹرک اور ایف ایس سی میں پورے نمبر لینے والے گیارہ سو ستانوے (1179) طلباء گھوم گئے ۔۔۔چار سال بعد اُن کے سوالات اِن سے بھی تلخ ہوں گے۔ گیارہ سو طلباء اپنے ٹیچر کو فون کرکے کہیں گے " آپ سے بات کرنی ہے"

اور جواب میں وہی خاموشی، طویل خاموشی ملے گی ۔

تعلیمی اداروں نے نمبروں کی دوڑ میں لگا کر تعلیم کو بھی میدان جنگ بنا دیا ہے ۔ دوڑتے دوڑتے اتنے آگے نکل چکے ہیں کہ عقل و شعور کہیں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ زیادہ مارکس کی دوڑ میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کی کریٹیویٹی کہیں دور رہ گئی ہے۔یہ تعلیمی نظام نام تو پیدا کر رہا ہے، پھر بھی اچھے ڈاکٹر، وکیل، انجینئر، سیاستدان اور سائنسدانوں کا فقدان کیوں۔؟اچھی تعلیم و تربیت، ادب و احترام اور اچھی اخلاقیات ان میں سے کچھ بھی تو ہمارا موجودہ تعلیمی نظام ہمیں نہیں دے رہا۔

اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہمارے معاشرے میں ڈگریوں کے سیلاب میں علم اور شعور کا قحط ہے۔تعلیمی ریکارڈز بنانے کے بعد کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے صحیح معنوں میں تعلیم یافتہ نوجوان پیدا کر رہے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ تعلیمی میدان میں تو ریکارڈ پر ریکارڈ بن رہے ہیں، مگر عملی میدان میں یہ ریکارڈ بنانے والے ہونہار طالب علم کوئی بھی اہم معرکہ سر انجام دینے میں ناکام رہتے ہیں۔

آج نوجوان نسل کے لئے تعلیم کا واحدمقصد محض ایک ڈگری لینا اور پھر اس ڈگری کی بنیاد پر نوکری تلاش کرنے کی جستجو کرنا ہے۔ہمارے طلباءکی اکثریت نہ تو اچھا شہری بن پاتی ہے، نہ اپنے مضمون پر ان کی گرفت اور نہ ہی ان کی معلومات عامہ اس حد تک ہوتی ہیں کہ وہ ملکی ترقی میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ ،نوجوانوں کی اکثریت نہ ہی اپنے ملک کے نظام کے بارے میں زیادہ کچھ جانتی ہے، نہ ہی اس کے جغرافیہ کے بارے میں درست معلومات رکھتی ہے۔ اکثریت کو اس بات کا بھی علم نہیں کہ ربیع اور خریف کی فصلیں کون سی اور کن موسموں میں ہوتی ہیں۔

جب تعلیم ہمارے نوجوانوں کی اکثریت کو نہ ضروری معلومات دے رہی ہے اور شعور تو ایسی تعلیم کا فائدہ کیا ہے؟ کیا تعلیم کا مقصد محض نوکری حاصل کرنا ہے؟ کیا ہمارے اداروں کی تباہی کی وجہ یہ ہی تو نہیں کہ ہمارے ملک میں اہم عہدوں پر ڈگری یافتہ بیٹھے ہیں، مگر”تعلیم یافتہ“افراد نا پید؟۔نصاب تعلیم میں کوتاہی اور کمی اپنی جگہ، مگر جو معلومات نصاب میں درج ہوتی ہیں نوجوانوں کو ان کا علم نہ ہونا کس کی کوتاہی ہے؟

کیا اس کی وجہ رٹا سسٹم ہے جس کا مقصد محض اچھے نمبر حاصل کرنا ہے ؟ اس لئے اکثر اوقات اے گریڈحاصل کرنے والے طلباء بھی انتہائی بنیادی معلومات نہیں رکھتے اور نہ ہی کتاب میں پڑھی ہوئی کسی چیز کو حالات سے relate کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید ہمارے اساتذہ کی اکثریت بھی ہے جو تعلیم کو بچوں کے لئے دلچسپ اور معلوماتی بنانے کی بجائے محض سبق یاد کروانے پر اکتفا کرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اچھے نمبر ، گریڈ اور ڈگری کے ساتھ طلباء علم سے بھی بہرہ مند کیا جائے۔