• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹیکساس فائرنگ کے مرکزی کردار فیصل ملک کے والد کا تعلق جہلم سے، برطانیہ میں بنیاد پرست بنا

لندن (مرتضیٰ علی شاہ)ٹیکساس فائرنگ کا مرکزی کردار فیصل ملک بلیک برن میں بنیاد پرست بنا ، جنگ اور جیو کو فیصل کے خاندانی ذرائع نے بتایا کہ ملک فیصل اکرم کے والد ملک اکرم ہیں جو مقامی کمیونٹی کی ایک معزز شخصیت ہیں جو کہ اصل میں جہلم سے ہیں اور تقریباً پانچ دہائیاں قبل برطانیہ ہجرت کر گئے تھے۔

ملک اکرم اور ان کا قریبی خاندان مقامی سیاست میں شامل رہا ہے اور ان کے قریبی رشتہ داروں میں سے ایک ملک عرفان لیبر پارٹی کے کونسلر ہیں۔ 

نمائندہ جنگ سے بات کرنے والے مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ ملک اکرم اور ان کا خاندان مقامی طور پر دوسروں کے ساتھ اچھا گزرا۔

اس نمائندے نے کم از کم تین خاندانی ذرائع سے بات کی جنہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ملک فیصل کا اپنے خاندان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں تھا جو مذہبی لیکن پرامن اور روادار ہونے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ 

ملک اکرم کے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ فیصل کے بھائیوں میں سے ایک حال ہی میں کوویڈ میں مبتلا ہونے کے بعد انتقال کر گیا تھا۔ملک اکرم رنڈال سٹریٹ پر واقع اسلامک سنٹر کے صدر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، جسے رضا مسجد کہا جاتا ہے۔

جہاں زیادہ تر پاکستانی نماز کے لیے جاتے ہیں لیکن ملک فیصل نے ایلڈن راڈ کی مسجد عرفان جاتے تھے ، جس میں زیادہ تر گجراتی مسلمان کمیونٹی نے شرکت کی۔ 

ایک مقامی ذریعے نے بتایا کہ ملک فیصل اکرم نے فلسطین کی آزادی کے لیے ہونے والے مظاہروں میں حصہ لیا اور گوانتاناموبے میں قید مسلمانوں کی رہائی کے لیے ہونے والے مظاہروں میں حصہ لیا۔ 

اس کی شادی ایک برطانوی گجراتی خاتون سے ہوئی تھی۔جیسے ہی فیصل کے یرغمال بنانے میں ملوث ہونے کی خبر سامنے آئی، مقامی بلیک برن کونسل نے تمام مقامی کونسلرز سے درخواست کی کہ وہ میڈیا سے بات نہ کریں۔

ملک فیصل اکرم کے بھائی گلبر اکرم نے ایک پیغام میں کہا کہ وہ ایف بی آئی کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور تمام اسٹینڈ آف کے دوران اپنے بہن بھائی کے ساتھ "رابطہ " کرتے رہے ہیں۔ 

انہوں نے معافی بھی مانگی اور لکھا: "یہ انتہائی افسوس کے ساتھ ہے کہ میں آج صبح ٹیکساس، امریکہ میں اپنے بھائی فیصل کے انتقال کی تصدیق کروں گا۔ ہم ایک خاندان کے طور پر بالکل تباہ ہو چکے ہیں۔ 

ہم ابھی زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ ایف بی آئی کی تحقیقات جاری ہیں۔"ایسا کچھ نہیں تھا جو ہم اس سے کہہ سکتے تھے یا کر سکتے تھے جو اسے ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کرتا۔ ظاہر ہے، ہماری ترجیح اس کی نماز جنازہ کے لیے اسے برطانیہ واپس لانا ہو گی حالانکہ ہمیں متنبہ کیا گیا ہے کہ اس میں ہفتے لگ سکتے ہیں۔

"ہم یہ بھی شامل کرنا چاہیں گے کہ کسی بھی انسان پر حملہ چاہے وہ یہودی، عیسائی یا مسلمان وغیرہ ہو، غلط ہے اور اس کی ہمیشہ مذمت کی جانی چاہیے۔ کسی مسلمان کے لیے یہودی پر حملہ کرنا یا کسی یہودی کے لیے مسلمان، عیسائی، ہندو وغیرہ پر حملہ کرنا بالکل ناقابل معافی ہے۔‘‘

کراچی میں ایک خاندانی ذریعے نے بتایا کہ عافیہ صدیقی کے خاندان کے تمام افراد ہسپتال میں تھے کہ وہ ایک شدید بیمار خاندان کے رکن کی عیادت کر رہے تھے جب انہوں نے یرغمالی کی صورتحال اور یرغمال بنانے والے کے مطالبے کی خبر سنی۔ایک قریبی رشتہ دار نے اس رپورٹر کو بتایا: "ملک فیصل اکرم اس قسم کے شخص نہیں تھے۔ 

وہ چند بار تبلیغی جماعت کے ساتھ گئے اور ہمیشہ شائستگی اور فکری گفتگو کی۔ یہ ناقابل یقین ہے کہ اس نے ایسا قدم اٹھایا۔ وہ کاروباری ذہن اور ہوشیار تھا۔ پوری کمیونٹی صدمے کی کیفیت میں ہے۔ 

یہ درست ہے کہ گزشتہ چند مہینوں میں اس کے اپنے خاندان کے ساتھ مسائل پیدا ہوئے تھے اور وہ پریشان تھے لیکن عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کرنے کے لیے امریکا جانا ناقابل یقین ہے۔

اہم خبریں سے مزید