اسلام آباد(نمائندہ جنگ)عدالت عظمیٰ نے ʼʼصحافیوں کے حقوق کے تحفظ اورانہیں ایف آئی اے سمیت مختلف حکومتی اداروں کی جانب سےہراساں کرنےʼʼ سے متعلق لئے گئے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چاروں صوبائی ایڈووکیٹ جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد سے صحافیوں کے تحفظ کیلئے حکومتوں کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات سے متعلق تحریری معروضات طلب کرلی ہیں جبکہ آئی جی اسلام آباد سے سینئر صحافی ابصار عالم سمیت صحافیوں پرہونے والے حملوں سے متعلق درج مقدمات کی تفتیش میں ہونے والی پیش رفت سے متعلق رپورٹ طلب کرلی ہے ، جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے بدھ کے روز ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی توڈی جی ایف آئی اے ثناء اللہ عباسی پیش ہوئے اور عدالت کے پچھلے حکم کی روشنی میں صحافیوں کیخلاف پریونشن آف سائنر کرائمز ایکٹ 2016کی دفعہ 20 کے تحت درج ہونے والے مقدمات کی تفصیل پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ایف آئی اے کے پاس صحافیوں سے متعلق کل 7 مقدمات ہیں، جن میں سے6 کے چالان متعلقہ عدالتوں میں جمع ہو چکے، جسٹس قاضی امین نے آئی جی اسلام آباد احسن یاسین سے استفسار کیاکہ کیا سینئر صحافی ابصار عالم پر حملہ کرنے کے مرتکب کے ملزمان گرفتار ہوگئے ہیں ؟ تو انہوں نے بتایا کہ فنگر پرنٹس اور ویڈیوز کی مدد سے ملزمان کا سراغ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے ،جسٹس قاضی امین نے کہاکہ آپ تو بہت قابل افسر ہیں،سارے اسلام آباد شہر میں کیمرے لگے ہوئے ہیں لیکن آپ سے ابصار عالم پر گولی چلانے والا پہچانا نہیں جا رہا ،آئی جی نے کہا کہ ایک موٹر سائیکل سوار کی نشاندہی ہوئی تھی لیکن تفتیش کے بعد وہ بھی واپڈا ملازم نکلا ہے ،انہوں نے کہاکہ اسلام آباد پولیس تحقیقات کیلئے نادرا اور دیگر اداروں پر انحصار کرتی ہے،نادرا کو د بھیجے گئے فنگر پرنٹس ابھی تک کسی شخص سے میچ نہیں ہوئے ہیں، جسٹس قاضی امین کا کہنا تھا کہ میں ابصار عالم کو جانتا تک نہیں ہوں،لیکن میرے لئے ہر شہری ہی ابصار عالم ہے، اٹارنی جنرل خالد جاوید خان پیش ہوئے اور جنات کے ذریعے کشمیر کے وزیراعظم کے انتخاب کی ایک خبر کا حوالہ دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اس خبر کے ذریعے ایک ایسی خاتون کی تضحیک کی گئی ہے جس کا عوامی معاملات سے کوئی تعلق ہی نہیں اور نہ ہی وہ کوئی عوامی نمائندہ ہیں ،انہوں نے کہا کہ عوامی عہدہ رکھنے والوں پر تنقید کرنے پرہمیں کوئی اعتراض نہیں ،جس پر جسٹس قاضی امین نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ عدالت گالم گلوچ کے معاملے میں کسی قسم کی کوئی فریق نہیں بنے گی،تاہم جنات والی بات گھٹیا اور غیراخلاقی ہے لیکن قابل تعزیر جرم کے زمرہ میں نہیں آتی ، بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ہتک عزت کے مناسب قوانین ہی موجود نہیں، انہوں نے کہاکہ ویسے تو سب ہی انگلینڈ میں میڈیا کی آزادی کی بات کرتے ہیں لیکن وہاں پر اگر کوئی ایسی ویسی بات کردے اور معاملہ عدالت تک پہنچ جائے تو ہتک کے مرتکب کو اپنا گھر بیچ کر بھی متاثرہ فریق کو جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے، انہوں نے کہاکہ جھوٹی خبروں کا سب سے زیادہ نقصان بھی خبر دینے والے کوہی ہوتا ہے،کیونکہ جھوٹی خبرکی زندگی بہت مختصر ہوتی ہے،ہمارے ہاں جھوٹی خبریں دینے والے جو چاہے کہتے رہیں؟ انہیں کوئی نہیں پوچھتا ، صحافیوں پر غیر ریاستی عناصر کی جانب سے بھی تشدد کیا جاتا ہے اورہر کوئی چاہتا ہے شام کوٹیلی ویژن پر اسکی مرضی کا تبصرہ ہو،انہوں نے کہاکہ پابندیاں اور حدود صرف صحافیوں اور صحافت پر ہی نہیں بلکہ ہر ایک پر ہی لاگو ہونی چاہئیں، آئین کیساتھ بہت سے معاملات مارشل لا دور میں بھی شامل ہوئے ہیں ،انہوں نے کہا کہ مذہبی آزادی اور ضابطہ فوجداری کو ایک ساتھ پڑھیں تو کسی ایک کو پھاڑنا پڑے گا،جس پرجسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ تمام قوانین کو کسی ایک جگہ اکٹھا کردیں ، بعد ازاں عدالت نے مذکورہ بالا احکام جاری کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔