• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں بیوروکریسی کا پس منظر رکھنے والے ایک وفاقی مشیر کے ’’نئے فارمولے‘‘ کے بارے میں کئی کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ اعلیٰ شخصیت افسر شاہی اور حکومت میں اپنی اہمیت بڑھانے کے لئے یہ کمالات دکھا رہی ہے۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ افسر شاہی کا وسیع تجربہ رکھنے کی وجہ سے انہیں ’’اسٹیبلشمنٹ ڈویژن‘‘ کے امور کا نگران مقرر کیا گیا تھا۔ ان کے قریبی رفقاء کا کہنا ہے کہ وہ سیاسی مقام و مرتبہ کو حاصل کرنے میں بھی خاصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ 

حال ہی میں انہوں نے کئی اداروں میں کارکردگی کو بہتر بنانے کےلئے بیوروکریٹس کی جگہ پر ٹیکنو کریٹس اور پیشہ وارانہ مہارت رکھنے والے ’’فارن کوالیفائیڈز‘‘ کو کلیدی عہدوں پر لگانے کا ’’انقلابی فارمولہ‘‘ دے کر وزارت قانون اور افسر شاہی کو ایک ’’نئے امتحان‘‘ میں ڈال دیا ہے۔ اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ مشیر کو بین الاقوامی اداروں کے ان نمائندوں کی سرپرستی حاصل ہے جو حکومت کے اہم معاملات کو کنٹرول کئے ہوئے ہیں؟

سابق وفاقی وزیر کی ماڈرن خاتون سے دوستی

وفاقی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ایک سابق وفاقی وزیر کی بیوروکریٹ فیملی کی ایک ماڈرن خاتون سے ’’دوستی‘‘ کے حوالہ سے کئی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ ان دونوں کے درمیان ہونے والی ’’رومانوی گفتگو‘‘ کی آڈیوز کا چرچا بھی زبانِ زد عام ہے۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے ہے کہ مذکورہ سابق وفاقی وزیر پارلیمانی سیاست کا نہ صرف تجربہ رکھتے ہیں بلکہ پارٹی میں بھی مقام رکھتے ہیں۔ 

یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ ایک اہم کمیٹی کے چیئرمین ہونے کی حیثیت سے وہ حکومت کو ’’ٹف ٹائم‘‘ دینے کی وجہ سے اعلیٰ حکومتی حلقوں کو کھٹک رہے ہیں۔ وزارت داخلہ کے ایک اعلیٰ افسر کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کے مذکورہ رہنما کو بھی ان کےبعض دوستوں نے اس صورتحال سے آگاہ کردیا ہے۔ اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ انہیں ’’انڈر پریشر‘‘ رکھنے کے لئے یہ ڈرامہ کیا جارہاہے؟

دو افسران کے اختلافات

صوبائی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں دو اعلیٰ انتظامی عہدوں پر تعینات افسران کے آپس میں بڑھتے ہوئے ’’اختلافات‘‘ کے حوالہ سے کئی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ دونوں افسران پاکستان ایڈمنسٹرٹیو سروس سے تعلق رکھتے ہیں۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ دونوں میں سے سینئر اعلیٰ افسر ایک طویل عرصہ سے سیاہ و سفید کے مالک تھے جبکہ ’’اوپر‘‘ سے آنے والے ان کے جونیئر افسر نے ان کے ’’اختیارات‘‘ کو کئی معاملات میں ’’سوالیہ‘‘ بنا دیا ہے۔ 

یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ ایڈمنسٹرٹیو کارپوریشن کا عہدہ جب پورے صوبے میں ڈپٹی کمشنروں کو دینے کے احکامات جاری ہوئے تو مذکورہ سینئر افسر کو ایک اور جھٹکا محسوس ہوا۔ اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ’’اوپر والوں‘‘ کی آشیرباد نے جونیئر افسر کو ’’طاقتور‘‘ بنا دیاہے؟

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید