• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

بلدیاتی انتخابات: اپوزیشن جماعتیں پھر کمر بستہ

خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کا پہلہ مرحلہ مکمل ہونے کے بعد جہاں پہلے مرحلےمیں امیدواروں کی رحلت کے باعث ٓصوبے کے6اضلاع میں ملتوی ہونیوالے انتخابات کے لئے انتخابی شیڈول جاری کیاچکاہے وہاں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کیلئے الیکشن کمیشن کی تیاریوں کے ساتھ ساتھ مختلف سیاسی جماعتوں نے ابھی سے انتخابی اتحاد اور ایڈجسمنٹ کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ سیاسی رابطوں اور صف بندی کا ا ٓغاز کردیا ہے۔

ایک جانب اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی جماعتیں سرگرم عمل ہیں تو دوسری جانب حکمران جماعت کیلئے بھی بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے غیرمتوقع نتائج کے بعد بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں۔ اگرچہ صوبائی وزراء کا بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں ابھی تک دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے مگر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان ابھی سے اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔

اس مقصد کے لئے جہاں وہ خیبر پختونخوا سے کامیاب ہونیوالے ارکان قومی اسمبلی کے ساتھ رابطے کرکے انہیں اعتماد میں لینے کی کوشش کر رہے ہیں وہاں وہ اپنے آبائی ضلع سوات اور ملاکنڈ کے دیگر اضلاع کے دورے بھی کرکے ایک طرح سے عوام رابطہ مہم بھی چلارہے ہیں۔ ان دوروں کے دوران وزیر اعلیٰ عوامی اجتماعات سے خطاب کے علاوہ ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح بھی کررہے ہیں۔ 

اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ نے ہفتہ رفتہ کے دوران بھی سوات میں میڈیکل کالج اور ڈینٹل کالج کے لئے نئے عمارتوں کا افتتاح کیا جبکہ سوات موٹر وے کے سیکنڈ فیز اور دیر موٹر وے سمیت ڈیرہ اسماعیل خان ایکسپریس ہائی وے پر بھی کام تیز کرنے کیلئے متحرک ہیں، وزیراعلیٰ کی نظریں نہ صرف 13 فروری کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے پر ہیں بلکہ انکا بنیادی ایجنڈا اگلے عام انتخابات سے قبل ہی صوبے میں میگا پراجیکٹس کی تکمیل کو بھی یقینی بنانا ہے تاکہ آئندہ عام انتخا بات میں عوام کے پاس سرخ رو ہوکر جاسکے۔ 

تاہم ان کی جماعت باالخصوص وفاقی حکومت کی جانب سے اٹھائے جانیوالے بعض اقدامات شائد انکی کوشیشوں کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بنے گی، وفاقی حکومت ابھی حال ہی میں خیبرپختونخوا میں ہونیوالے بلدیاتی انتخابات پہلے مرحلے میں اپنے اکثریتی اُمیدواروں کی شکست دیکھ چکی ہے، جسے بظاہر تو پارٹی کے بعض ارکان اس ناکامی کو پارٹی ٹکٹوں کی غلط تقسیم قرار دیتے ہیں لیکن اصل وجہ وفاقی حکومت کی جانب سے آئے روز بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہے۔

اعداد وشمار کے مطاق موجودوہ حکمرانوں کےد ور میں اشیاضروریہ کی قیمتوں میں دس 80فیصد جبکہ بعض کھانے پینے کی اشیا میں سو فیصد سے بھی زائد کا اضافہ ہوچکاہے جس نے عام آدمی کو حکومتی کارکردگی سے مایوس کرکے رکھ دیا کیونکہ موٹر وے اور بڑی عمارتوں کی تعمیر سے عام آدمی کےمسائل کم نہیں ہونگے، جب غیریب عوام کے پاس کھانے کو کچھ نہ ہو تو وہ ہائی ویز اور موٹر ویز سمیت میگا پراجیکٹس کو حکمرانوں کی کامیابی قرار نہیں دیں گے۔ 

آج چند مخصوص افراد کو چھوڑ کر زندگی کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے پاکستانی موجودہ حکومت کی کارکردگی سے ناخوش ہے، اور جسکی بنیادی وجہ اشیاء ضرورت کی قیمتوں میں تاریخی اضافہ ہے۔ ایسے میں دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی حکومت کے خلاف محاذ کھولنے کا موقع ملا ،جن سیاسی جماعتوں کو پاکستان تحریک انصاف کے راہنماء چار سال تک چور چور کہتے رہے ان سے ایک پائی کی ریکوری نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ اب تو وہ برملا کہہ رہے ہیں پی ٹی آئی کی حکومت کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں جن میں دیگر منصوبوں کے علاوہ پشاور بی آرٹی،مالم جبہ سمیت دیگرمیگا منصوبے میں شامل ہیں جس میں کھلے عام کرپشن کا بازار گرم کئے رکھا۔

اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ جب تبدیلی سرکار ختم ہوگی تو انکے مبینہ کرپشن کے اتنے کھاتے کھل جائیں گے لوگ ماضی کی کرپشن کو بھول جائیں گے، ان سیاسی جماعتوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت کے خاتمے کے بعد پی ٹی آئی میں شامل زیادہ تر لو گ ایک ایک کرکے ملک چھوڑ کر نکلیں گے۔ آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کے دعوے کرنے والے حکمرانوں نے چند ارب ڈالر کے حصول کے لئے سب کچھ آئی ایم ایف کے حوالے کردیا گیا ہے،روز مرہ کے حساب سے مہنگائی میں اضافے، امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال، بے روزگاری سمیت کئی دیگر مسائل کے حل ناکامی کے بعد حکمران قرضہ لینے کیلئے مالیاتی اداروں کے ساتھ بات چیت کو اپنی کامیابی قرارد ے رہے جسے اس ملک کے غریب عوام نے واپس کرنا ہے۔ 

اب تو آئی ایم ایف کو خوش کرنے کےلئے ماہانہ بنیاد پر گیس ،اشیا ضروریہ اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اضافے کرکےکا غریب عوام کا جینا محال کردیا گیا ہے، اور عوام کومسلسل ہر تین ماہ بعد مہنگائی کے خاتمے کی جھوٹی تسلیاں دی جا رہی ہیں، گنتی کے چند سرکاری اہلکاروں کی تنخواہ اور مراعات میں اضافہ کرکے انکے بل بوتے 22کروڑ عوام پر مہنگائی کا بم گریا جاتاہے۔ 

حالیہ منی بجٹ کے بعد ملک کے دیگر صوبوں کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی 150شیاء ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا اور یہی منی بجٹ 13فروری کو ہونےوالے بلدیاتی انتخابات کے دوسر ے مرحلے میں حکمران جماعت کے گلے میں کانٹا بنے گا۔ اگر ایک جانب اے این پی اور پی پی پی کا اتحاد ہوا اور دوسری جانب پی ڈی ایم میں شامل جے یو آئی، (ن) لیگ اور قومی وطن پارٹی اتحادی ہوں تو حکمران جماعت پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دینے میں کوئی مشکل نہیں ہوگی۔ 

جبکہ جماعت اسلامی نے بھی بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں سولو فلائیٹ کرنے سے بہت کچھ سیکھا ہے عین ممکن ہے کہ وہ بھی کسی ہم خیال جماعت کے ساتھ انتخابی اتحادکی طرف جائیں ،آنے والے چند دنوں میں اس حوالے سےصورت حال واضح ہونے کا اکان ہے۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید