• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جج کو اللّٰہ کی ذات اور آئین کا ڈر ہونا چاہیے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

لاہور(نمائندہ جنگ)سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ جج کو اللّٰہ کی ذات اور آئین کا ڈر ہونا چاہیے،جج کو بہادر نہیں ڈرپوک ہونا چاہیے، ڈرپوک جج قانون اور آئین کے مطابق فیصلہ کرتا ہے، مجھے کسی اور نے بھی یہی کہا تھا میں بہادر ہوں میں نے کہا جج کو بہادر نہیں ڈرپوک ہونا چاہیےہڑتال کی سزا سائلین کو برداشت کرنی پڑتی ہے، جج اور عدالتی عملے کو فرق نہیں پڑتا، انہیں تو تنخواہ ملتی رہتی ہے،سول جج اور ایڈیشنل سیشن جج کیلئے ٹیسٹ ہو سکتا ہے تو دوسروں کیلئے کیوں نہیں، پاکستان میں جتنے قانون بنتے ہیں، انگریزی میں ہوتے ہیں، یہاں اردو میں قانون بنانے کی ضرورت ہے، سمجھ نہیں آیا کہ وفاقی پارلیمان ہو یا صوبائی اسمبلیاں قانون اسی وقت اردو میں کیوں نہیں شائع کرتیں، مقدمہ بازی کی بڑی وجہ قانون سے ناواقفیت ہے، ہڑتال کی سزا سائلین کو برداشت کرنی پڑتی ہے، جج اور عدالتی عملے کو فرق نہیں پڑتا، انہیں تو تنخواہ ملتی رہتی ہے، سول جج اور ایڈیشنل سیشن جج کیلئے ٹیسٹ ہو سکتا ہے تو دوسروں کیلئے کیوں نہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نےلاہور ہائیکورٹ بار کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ انگریزی زبان میں تو بہت کام ہوا ہے اور اُردو زبان میں ابھی بہت کام ہونا باقی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جتنے قوانین بنتے ہیں وہ انگریزی زبان میں بنتے ہیں ، مجھے سمجھ نہیںآیا کہ اسی وقت چاہے وفاقی پارلیمان ہو یا صوبائی اسمبلیاں ہوں وہی قانون اُردو میں بھی اسی وقت کیوں شائع نہیں ہوسکتا ہے، اس معاملہ پر بھی وکلاء آواز اٹھا سکتے ہیں۔ جب قانون انگریزی میں ہو اوران کے ترجمے لوگوں کو نہ ملیں تو پھر آپ لوگوں کو کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ قانون پر عمل کریں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جہاں تک مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کی بات ہے تو حالات کو بہتر بنانے کے لئے کچھ اقدام اٹھائے جاسکتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ جب میں بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس تھا تو وکلاء کی ہڑتال کی وجہ سے کبھی عدالت کا کام معطل نہیں ہوا، ہمارے تعلقات وکیلوں کے ساتھ بہت اچھے تھے اور میرے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے تھے تاکہ اگر کوئی مسئلہ ہو تو وہ اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے مجھ سے آکر بات کریں، بیشتر ایسے مسئلے ہوتے تھے جو نظام عدل کی بہتری کے لئے ہی ہوتے تھے، جس پر کوئی دورائے نہیں ہوسکتی، ہڑتال کی سزاسائلین کو بھگتنا پڑتی ہے، جج اورعدالت کے عملے کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتااوران کو پہلے کی طرح اپنی تنخواہ ملتی رہتی ہے۔کسی اصولی مسئلہ پر جدوجہد اوراپنی آواز بلندکرنے کے لئے ہڑتال کے علاوہ بھی کئی طریقے ہیں، بشمول خط لکھنا، قرارداد منظورکرنا وغیر ہ، اس طرح سائلین کو تکلیف دیئے بغیر ایک باعزت طریقہ سے مسئلہ کی نشاندہی ہو جاتی ہے اور ضرورت پڑے تو احتجاج بھی، احتجاج کرنا بھی وکلاء کا آئینی حق ہے۔

اہم خبریں سے مزید