اسلام آباد (فاروق اقدس) پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے سربراہی اجلاس میں ہونے والے تمام فیصلوں اور حکومت کیخلاف احتجاجی اقدامات کے حوالے سے نواز شریف اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمان کے درمیان مکمل اتفاق رائے اور ہم آہنگی موجود تھی.
اجلاس سے قبل دونوں رہنمائوں کے مابین طویل ٹیلیفونک رابطے میں سٹیئرنگ کمیٹی کی سفارشات، عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے تحفظات پر غور وخوض اور 23 مارچ کو لانگ مارچ کی تاریخ نہ بدلنے کے فیصلے پر بھی مختلف پہلوئوں سے جائزہ لیا گیا.
اجلاس میں مولانا فضل الرحمان نے شرکاء کو نواز شریف سے ہونے والی گفتگو کے اہم نکات کے حوالے سے اعتماد میں لیا اور ان کی تائید حاصل کی تاہم اجلاس کے حوالے سے یہ دیرینہ قیاس آرائی خبر کی شکل اختیار نہ کرسکی جس میں یہ بات بڑے وثوق سے کہی جارہی تھی کہ مولانا فضل الرحمان اور پیپلز پارٹی اس بات پر متفق ہوگئے ہیں کہ وزیراعظم.
قومی اسمبلی کے سپیکر اور سینٹ کے چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکیں لائی جائیں گی .
اجلاس میں موجود ایک رہنما کے مطابق سٹیئرینگ کمیٹی کی سفارشات میں شامل عدم اعتماد کی تحریک کے بارے گفتگو کے دوران وڈیو لنک پر موجود شہباز شریف نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کی حمایت کی تھی لیکن پی ڈی ایم کے صدر کی پرزور مخالفت کے باعث اس موضوع پر مزید بات نہیں ہوسکی.
ایک مرحلے میں مولانا فضل الرحمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی تو یہ ایک ایسا ’’سیاسی خسارہ‘‘ ہو گا جس کا ازالہ کرنا مشکل ہو جائے گا ، تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کی اتحادی جماعتوں سے رابطوں کا سلسلہ فوری طور پر شروع کیا جائے گا.
فضل الرحمان نے یہ واضح کیا کہ پی ڈی ایم کسی دوسری جماعت کی جانب سے لانگ مارچ یا دھرنے کے احتجاج میں شامل نہیں ہوگی تاہم 30 مارچ کو جو جماعت ہمارے ساتھ آنا چاہیے ہم خیرمقدم کریں گے، اس کیساتھ ہی آصف زرداری یا بلاول بھٹو سے کسی قسم کے رابطوں کی بھی انہوں نے تردید کی۔