وطن عزیز کی سیاست میں ایک بار پھر آزمودہ اور ناکام ’’سیاسی فارمولوں‘‘ کو دہرانے اور سجانے کی صدائیں سنائی دے رہی ہیں۔ فکری جمود کی سوچ رکھنے والے مفاد پرست اور ’’ریموٹ کنٹرول‘‘ سیاسی رہنما دوبارہ صدارتی نظام کے ان راستوں پر چلنے کے خواہاں ہیں جو جدید تقاضوں سے آشنائی کا حوصلہ نہیں رکھتے ہر دور میں اقتدار کی خواہش رکھنے والے ان ناعاقبت اندیشوں کے ہاتھوں کئی بار جمہوریت کی بساط کو لپیٹاگیا اور تاریخ نے کئی بار ان کے ناقابل فراموش گھنائونے کردار کی نشاندہی کرتے ہوئے قوم کو اس دردناک صورتحال سے آگاہ کیا۔
یوں محسوس ہو رہا ہے کہ روپ بدل کر اپنے کمال دکھانے والے پھر سرگرم عمل ہیں لیکن واشگاف تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ دہشت گردی کی لہر نے داخلی اور خارجی محاذ پر نئے سوال کھڑے کر دیئے ہیں ۔’’گیٹ نمبرچار‘‘ پر فخر کرنے والے وفاقی وزیر داخلہ گھبراہٹ کے عالم میں ’’ریڈالرٹ‘‘ جاری کرکے قوم کو ’’عدم تحفظ‘‘ کا ماحول فراہم کر رہے ہیں ’’گورنس‘‘ نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دے رہی اور نہ ہی ’’گورنس‘‘ موجودہ حکومت کے بس کی بات دکھائی دے رہی ہے۔
ان حالات کی وجہ سے معاشی و سیاسی عدم استحکام بڑھتا جا رہا ہے۔ منی بجٹ سے متوقع مہنگائی کے خوف سے عوام پہلے ہی پریشان اور بے چین تھے لیکن نئے سال کے آغاز پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نے مہنگائی کے طوفان میں مزید تلاطم برپا کر دیا ہے اور عوام کا جینا بے حال کر دیا گیا ہے ۔ وفاقی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں دو وفاقی وزراء کے خوشآمدی اور چاپلوسی پر مبنی بیانات کی بازگشت کے بارے میں کئی کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔
واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ مذکورہ دونوں وفاقی وزراء کو حکومت کی ’’نام نہاد کارکردگی ‘‘ کے حوالہ سے زمین اور آسمان کے قلابے ملانے کا ’’خصوصی ٹاسک‘‘ دیا گیا ہے۔ ایک وفاقی وزیر کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ وہ توانائی کی وزارت کے قلمدان کو جعلی اعدادو شمار سے چلانے کی کوشش میں اتنے آگے نکل گئے ہیں کہ وزارت کے اعلیٰ حکام بھی پیچھے سے چیخیں نکال رہے ہیں ۔کابینہ کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ وہ اپنے والد محترم کی طرح آنے والے بلدیاتی انتخابات میں ’’لارڈ میئر ‘‘ کا عہدہ حاصل کرنے کے لئے حددرجہ ’’بیتاب‘‘ دکھائی دے رہے ہیں۔
دوسرے وفاقی وزیر ہمہ وقت اپوزیشن کی قیادت کو اپنی ’’سیاسی فراست‘‘ کے ذریعے ایسے’’انکشافات‘‘ سے ہمکنار کرتے رہتے ہیں کہ ’’حیرانگی‘‘ کے علاوہ کوئی اور پہلو دکھائی نہیں دیتا ۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ منی بجٹ نے پاکستان کا ’’معاشی قبلہ‘‘ بدل کر خوفناک تباہی کا راستہ کھول دیا ہے ۔مہنگائی کے بڑھتے ہوئے عفریت سے حکومت کے خلاف بیانیہ عوام میں تیزی سے مقبول ہو رہا ہے ۔ حکمران جماعت کی غیر موثر پالیسیوں کی وجہ سے اپوزیشن الائنس ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہنے کے باوجود اپوزیشن جماعتیں عوامی مقبولیت بڑھانے میں کامیاب رہیں۔
حکومتی پارٹی میں ہر سطح پر مختلف دھڑے بھی دکھائی دے رہے ہیں ۔ غیر منتخب افراد کی اپنی ایک ’’مخصوص لابی‘‘ ہے جس سے کئی وفاقی وزراء بھی نالاں دکھائی دے رہے ہیں ۔حکمرانوں کو دیکھتے ہوئے افسر شاہی بھی ان کی راہ پر چل نکلی ہے۔ وہاں بھی کئی گروپ بنے ہوئے ہیں۔ کوئی پرائم منسٹر سیکرٹریٹ سے منسلک ہے اور کئی ایوان وزیراعلیٰ سے جڑے ہوئے ہیں۔ کئی بیوروکریٹوں نے صوبے کے ا نتظامی سربراہ کے دامن میں پناہ لے رکھی ہے ۔سانحہ مری نے حکومت کی منصوبہ سازی اور انتظامیہ کے ناقص طرز عمل کا بھرم کھول کر رکھ دیا ہے۔
حکومت کے ترجمانوں کی فوج ظفر موج بھی ڈھٹائی سے جھوٹ بولنے کا ریکارڈ قائم کر رہی ہے ۔ ’’ایک پیج‘‘ پر ہونے کا دعویٰ کرنے و الی حکومت بھی کئی معاملات میں تذبدب اور گھبراہٹ کا شکار دکھائی دے رہی ہے۔ وزیراعظم کے ’’وسیم اکرم پلس‘‘ بھی حکومتی معاملات کے امور میں نہ صرف ’’مائینس‘‘ محسوس کئے جا رہے ہیں بلکہ اعتماد اور اعتبار کے فقدان میں مبتلا دکھائی دے رہے ہیں۔
صوبائی دارالحکومت میں سیاسی سرگرمیاں واضح طور پر دکھائی دے رہی ہیں۔سیاسی حلقوں میں یہ بات شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ حکومت مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف سے زیادہ ان کے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف سے خوفزدہ ہے اور یہ خوف حکومت کے بیانات اور اقدامات سے واضح ہے۔ کبھی وفاقی کابینہ کی طرف سے میاں شہباز شریف کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں رجوع کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے اور کبھی ان کی گرفتاریوں کے منصوبوں کے ’’نئے فارمولے‘‘ تیار کئے جاتے ہیں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو میاں شہباز شریف کے معاملہ میں اتنی گھبراہٹ ہے کہ وہ احتساب ریفرنس کے الزامات کو دوبارہ ایف آئی اے کے مقدمات میں شامل کرکے بینکنگ کورٹ کے ذریعے ان کی گرفتاری کا پروانہ حاصل کرنے کے درپے ہے حالانکہ انہیں اچھی طرح علم ہے کہ ایک ہی الزامات کی بنیاد پر دو مقدمات کا ٹرائل ہر لحاظ سے غیر قانونی ہے۔ ادھر پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز شریف نے احتساب عدالت میں ترمیمی آرڈیننس کی روشنی میں جو بریت کی درخواست دائر کر رکھی تھی وہ بھی واپس لے لی ہے اور واشگاف طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ ’’میرٹ‘‘ پر مقدمہ لڑ کر انصاف حاصل کریں گے وہ کسی حکومتی قانون کی رعایت کا سہارا نہیں لیں گے۔
ان کے اس عزم سے یہ پہلو واضح ہو کر سامنے آیا ہے کہ میاں شہباز شریف کا خاندان استقامت اور پامردی سے حکومت کے انتقامی ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے ۔ اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں شہباز شریف کو رونا میں مبتلا ہونے کے باوجود عوامی مسائل اور مشکلات پر اپنے مزاحتمی بیانات اور ردعمل کا بھرپور مظاہرہ کر رہے ہیں اور پی ڈی ایم کی قیادت سے مسلسل مشاورت کے ذریعے آئندہ کے سیاسی لائحہ عمل کو مرتب کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور سیاسی میدان میں فیصلہ کن جنگ لڑنے کے لئے پارٹی قائد سے مسلسل رابطے میں رہ کر’’گائیڈ لائن‘‘ لیتے ہیں اور پارٹی رہنمائوں کو اعتماد میں لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔