• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آمنہ علی

اکثر والدین یہ شکایت کرتے ہیں کہ آج کل کے بچے کہنا نہیں مانتے ،ہر بات پر اپنی مر ضی کرتے ہیں۔ بچوں کا ضدی ہونا یا غصے کا تیز ہونا آگے چل کر ان کے لیے نقصان کا باعث بنتا ہے ۔ اور ان کی یہ عادت دوسروں کے لیے بھی نقصان دہ ہوسکتی ہے۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ شروع ہی سے بچوں کی تر بیت کرتے وقت ان عوامل کو ذہن میں رکھیں ،جو بچوں کی شخصیت کو بنانے میں اہم کردارادا کرتے ہیں۔

اگر آپ کا بچہ ضدی ہے تو سب سے پہلے آپ ان وجوہات پر غور کریں ،جن کی وجہ سے وہ ضد یا غصہ کرتا ہے ۔ سب سے پہلے یہ دیکھیں کہ بچہ کس قسم کا رویہ اپنا تا ہے۔ ہوسکتا ہے گھر کے کسی فرد کا رویہ بھی اسی قسم کا ہو ، کیوں کہ سچ تو یہ ہے کہ بچے اپنے ماحول سے بہت زیادہ سیکھتے ہیں۔ ایسی صورت میں بچے بڑوں کو دیکھتے ہوئے ضد یا غصہ کرنے کی عادت اپنا لیتے ہیں ۔ایک اور وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آپ بچے سے کہی ہوئی بات پورے نہ کرتی ہوں۔

مثال کے طور پر آپ نے بچےسے کہا کہ اگر تم امتحانات میں اچھے نمبر نہیں حاصل کروں گے تو تمہیں فلاں چیز نہیں ملے گی ،مگر اچھے نمبر نہ حاصل کرنے کی صورت میں بھی اس کو وہ چیز دلا دی جاتی ہے یا کسی غلط بات پر ڈانٹ دیا اور پھر فوری ہی پیار بھی کر لیا جاتا ہے ۔ والدین کے اس عمل کی وجہ سے بچہ ان کی کہی بات کو سنجیدہ نہیں لیتا اور آہستہ آہستہ اس کی یہ عادت پختہ ہو جاتی ہے۔ اور ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بعض والدین بچوں کے رونے دھونے سے گھبراجاتے ہیں اور فوراً ان کی خواہش یا ضد کو پورا کردیتے ہیں ۔ یاد رکھیں !بچے اکثر اپنے رونے کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ اگر بچے کی یہ عادت پختہ ہونے لگے تو اسے سختی ڈانٹیں اور اس کی اس حرکت کو نظر انداز کرنا شروع کردیں ۔

ایک آسان طر یقہ یہ بھی ہے کہ جب وہ کسی بات پر ضد کرنے لگے توا س کی تو جہ کسی اور جانب کردیں ۔یہ بات یاد رکھیں کہ بچے پیدائشی ضدی نہیں ہوتے بلکہ یہ والدین کی تر بیت پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کس کا طر ح رویہ اپناتا ہے۔ بچوں کی تمام تر اُمیدیں والدین سے ہی وابستہ ہوتی ہیں اور والدین بھی فطری محبت کے باعث مجبور ہوکر بچے کی ہر خواہش کو پورا کردیتے ہیں۔

حالاں کہ سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ بچہ کس چیز کے لیے ضد کررہا ہے ۔اگر مذکورہ چیز حاصل کرنے کی خواہش بے جا ہے ۔مثال کے طور پر اگر اس کے پاس کلر پینسلوں کا سیٹ پہلے ہی سے موجود ہے اور وہ پھر مانگ رہا ہے تو آپ اسے پیار ومحبت سے سمجھائیں کہ آپ کے پاس کلز پینسلز موجود ہیں، پہلے انہیں استعمال کریں ،جب وہ ختم ہوجائیں گی تو نیا سیٹ دلا دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اگر بچہ کھانے پینے کی ایسی چیز کے لیے ضد کر رہا ہے ،جو مضر صحت ہے تو اسے نرمی سے سمجھائیے کہ یہ شے اس کے لیے نقصان دہ ہے۔بچوں سے ہمیشہ واضح الفاظ میں بات کیجیے۔

انھیں بتائیے کہ گھر میں کسی مہمان کے آنے پر انھیں کس طرح رہنا ہے۔بچوں کے بے جارونے دھونے سے ہر گز پریشان نہ ہوں، بلکہ انہیں نظر انداز کریں اور ان کی طرف متوجہ نہ ہو ۔ کوشش کریں کہ اس طرح رونے کی نوبت ہی نہ آئے۔بچہ جب بھی کسی چیز کے لیے ضد کرے تو فوری طور پر اس کا دھیان بٹانے کی سعی کریں۔ یہ بات تو طے ہے کہ بچے اپنے بڑوں کو دیکھ کر سیکھتے ہیں، اس لیے بچوں کے سامنے اچھی عادات کا مظاہرہ کریں، تاکہ بچے بھی ایسی ہی عادات اپنائیں بچوں کی تربیت میں محض سختی یا بےجا پیار سے کام لینے کے بجائے درمیانہ راستہ اپنائیں اور انہیں موقع کی مناسبت سے سمجھائیں۔