عثمان عامر
آج کا نوجوان اپنی صلاحیتوں کو بے دریغ غلط کاموں میں خرچ کر رہا ہے۔ جنہیں کل کا رہبر بننا ہے وہ آج کے رہزن بنتے جارہے ہیں۔ تعلیمی و تربیتی لحاظ سے یہاں کی مٹی بڑی زرخیز ہے لیکن حالات کسی اور چیز کی عکاسی کررہے ۔ مثبت پہلو کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ والدین کی طرف سے دی گئی آزادی کا اولاد ناجائز استعمال کر رہی ہے، تعلیمی اداروں کے آس پاس ریستوران کی طرف دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ باپ کے پاس گاڑی کا کرایہ نہیں اور بچے ریستوران میؓ ایسے بیٹھے ہیں، جیسے کروڑوں کے مالک ہیں۔
انٹرنیٹ بالخصوص سوشل میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ استعمال نے قوم کے مستقبل کو داؤ پر لگادیا ہے، اس پر مستزاد یہ کہ اسے جدیدیت کا نام دیاجارہا ہے۔ اس کے بے تحاشا استعمال نے نوجوانوں کے کردار کو سستے داموں میں فروخت کردیا ہے۔ نوجوانوں کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر دْکھ اور تشویش ہوتی ہے کہ وہ کس طرح مختلف بْرائیوں کی نذر ہور ہے ہیں۔
اخلاقی بے راہ روی میں مبتلا ہوکر نہ صرف جرائم بلکہ مختلف منشیات کی عادی ہوکر ذہنی طور پر مفلوج ہورہےہیں جو نہ صرف ہماری تہذیب اور اخلاقی اقدار کے خلاف ہے بلکہ مذہبی عقائد و اصول کے منافی بھی ہے۔ بعض بے ضمیر کاروباری ادارے بھی اپنی نوجوان نسل کو بگاڑنے، اْسے ہر طرح سے آلودہ کرنے اور مختلف ناجائز اور غیر قانونی دھندوں میں دھکیلنے میں مصروف ہیں۔ معاشرتی زندگی اس وقت خطرناک موڑ پر کھڑی ہوئی ہے۔قوم کے ذمہ داروں کو خواب خرگوش سے بیدار ہونا پڑے گا۔ بہت ہو گیا اب اُنہیں نسلِ نو کی بہتری کے لیے بہترین اقدامات کرنے ہوں گے۔ ذمہ دار لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچانا ہوگا۔
پاکستان میں ایک کثیر تعداد طلباء کی ہونے کے باوجود بھی ہم ایک عملی اور پرامن معاشرہ بنانے میں ناکام اس لیے ہیں کہ تعلیم کے معیار پرہی انسانی زندگی کے دیگر معیار استوار ہوتے ہیں۔ ہمارا تعلیمی معیار ہماری زندگی، حالات اور رویوں کے معیار کاغماز ہوتا ہے۔
تعلیمی نظام جن اقدار کو رواج دیتا ہے، طلباء اپنی زندگی میں ان ہی اقدار کو اختیار کرتے ہیں۔ علم کے مقاصد میں یہ نقطہ بھی قابل غور ہے کہ طلباء مہذب اور وقت کا مثبت استعمال کرنے و الے بن جائیں۔ اپنی راتوں کو طلب علم کے لئے وقف کردیں۔ لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔
اصلاحِ احوال یہ ہے کہ انہیں معاشرے کی تعمیر کے لیے ایسے وسائل مہیا کیے جائیں جو تعصب کی آبیاری کرنے کی بجائے ایک کشادہ ذہنی کی سوچ کے حامل ہوں۔ تعلیم کے میدان میں نوجوانوں کو ایسی آسان مہارتیں بھی مہیا کریں جس سے وہ فعال کردار ادا کرنے کے قابل ہوسکیں۔
علم و شعور سے آگاہی ہی نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی کو روکنے کا واحد حل ہے ۔ نوجوان ہی ملک و ملت کی ڈوبتے بیڑے کو پار لگانے کا واحد سہارا ہیں۔ شعور ہی انہیں اچھا شہری اور اچھا انسان بنائے گا۔
ملک کا مستقبل نوجوانوں کی سوچ کے معیار اور اندازِ فکر پر منحصر ہوتا ہے، یہ سوچ وفکر جتنی بامقصد اور بلند ہوگی ملک ترقی کی منازل اتنی ہی تیزی سے طے کرے گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان اپنی درست راہ کا تعین کرکے اس پر اخلاص و محنت کے ساتھ گامزن ہوں۔
قائدِ اعظم محمد جناح نوجوانوں سے صرف یہی توقع رکھتے تھے کہ وہ ملکی ترقی کے ہر دور میں اپنا متحرک اور نتیجہ خیزکردار بھرپور طریقے سے انجام دیں۔ طالب علمی کا دورزندگی کا اہم ترین دور ہوتا ہے۔ علمی میدان میں یہی نوجوان ہمارا اثاثہ ہیں۔ تعلیمی ادارے صرف پڑھائی ہی نہیں بلکہ طلبہ کی شخصیت و کردار کی تعمیر کا بھی اہتمام کریں۔
تعلیمی اداروں کو جسمانی ،روحانی اور تربیت فراہم کرنے والے مراکز میں بدلنا اسی وقت ممکن ہے جب اساتذہ ذہنی ا و روحانی طور پر فعال ہوں ،ان پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، جنہیں پورا کر کے وہ معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں ان کی سب سے پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ اخلاص اور ایمان داری کے ساتھ تعلیم و تربیت پر توجہ دیں۔
نوجوانوں کی صحیح رہنمائی کی جائے تا کہ یہ اپنی زند گی میں مقاصد کا تعین کرکے ان کے حصول کے لیے سرگرمِ عمل ہو جائیں اور بھر پور کامیابی حاصل کرسکیں، معاشی اور معاشرتی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں۔ نئے رجحانات جو طلباء کو ان کی تعلیم سے دور کر رہے ہیں اُنہیں چاہیے کہ اس سے خود کو بچائیں، زمانے اور معاشرےکے ظالم ہتھکنڈوں سے خود کو محفوظ رکھیں۔
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی