’’امی بابا مجھے معاف کردیں میں کمزور ہوگئی‘‘… یہ آخری تحریر ڈاکٹر عصمت خالد کی ہے جو میڈیکل کے فائنل ائیر کی طالبہ تھی،جس نے خود کوگولی مار کرخود کشی کرلی…یہ آخری تحریر معمولی تحریر نہیں ہے جس سے صرف نظر کیا جاسکے۔ یہ دلوں کو چیردینے والی تحریر ہے۔یہ ہمارے بے حس معاشرے کے منہ پر ایک بھرپور طمانچے ہے۔ یہ غیرت مندمعاشرے کا گھناونا چہرہ دکھاتی ہے۔
تھوڑے عرصے میں تیسری میڈیکل کی طالبہ کی خودکشی خود اپنی جگہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ ڈاکٹر عصمت نے اپنی امی اور بابا سے معافی مانگی ہے… میری بیٹی میری بہن ہم تم سے معافی مانگتے ہیں کہ ہم اس ملک کے باسی ہیں جہاں انسانی جان اور زندگی تیزی سے ارزاں ہورہی ہے۔ ہم اس قبیلے سےتعلق رکھتے ہیں ، جہاں بے حسی، بے غیرتی اور قانون شکنی طرہ امتیاز ہے۔ ہم معافی مانگتے ہیں کہ ہم تمہاری مدد نہ کرسکے…تم جو لوگوں میں زندگی بانٹنے کا ہنر سیکھ رہی تھیں، تمہیں تو سفید کوٹ پہن کردکھ درد میں مبتلا لوگوں کی دادرسی کرنا تھی، ہم سب کو دکھی کرگئیں۔
تم نے اتنی جلدی ہار کیوں مان لی… ہمارے معاشرے میں تو لڑکی پیدا ہوتے ہی حالت جنگ میں ہوتی ہے۔ ماں باپ کے گھر میں بہن اور بیٹی کی حیثیت سے اپنی وجود کی پہچان کےلئے جنگ،اپنی ذات کو منوانے کے لیے اور حصول علم کےلئے جنگ۔ اپنے حقوق کی حفاظت اپنی عزت وتوقیر کی حفاظت کیلئے جنگ۔ معاشرے کے نام نہاد ٹھیکیداروں کے خلاف جنگ ۔گھر سے باہر اسکول کالج یا کام کی جگہ پر لوگوں کی حریصانہ نظروں اور منفی رویوں کے خلاف جنگ، تاکہ معاشرے میں سر اٹھاکر چلا جاسکے اور معاشرہ بھی ایسا جہاں ہرطرف دوپاؤں والے جانور عورتوں اور بچیوں کو شکار کرنے انہیں بھنبھوڑنے کے لئے رال ٹپکاتے پھررہے ہیں۔
عصمت تم جلد کمزور پڑگئیں ۔کاش کہ بندوق کی وہ گولی جوتم نے اپنے اندر اتارلی ،کاش کہ وہ شخص جو تمہارا جعلی نکاح نامہ بنواکر پھر رہا تھا اس کے سینے میں اتاردی ہوتی، توایک تاریخ رقم ہوجاتی،مگر تم جلد کمزور پڑگئیں۔ہم تم سے شرمندہ ہیں۔ ہم ہراس عورت، اس لڑکی، اس بچے اوراس انسان سے شرمندہ ہیں جس نے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جو ریاست مدینہ بننے جارہی ہے میں حالات کے ہاتھوں مجبور ہوکر خودکشی کرلی۔ غربت، بھوک، ظلم، جبر ،زیادتی اور رسوائی کے خوف اور بے عزتی کے ڈر سے خود کشی کرلی۔
ماں باپ اولاد کےلئے کیسے کیسے خواب دیکھتے ہیں ان خوابوں میں انکی اعلیٰ تعلیم اور ترقی،صحت مند اور خوشگوار زندگی کے خواب ہی توہوتے ہیں جنکی تکمیل کےلئے وہ اپنی خواہشوں کو پس پست رکھ کردن رات محنت کرتے ہیں، مگر جب اولاد خودکشی کرلے تو وہ ان کے ساتھ ہی جیتے جی مر جاتے ہیں۔
حقیقت کچھ بھی ہو، حالات کیسے بھی ہوں، شاید کچھ واقعات خودکشی کے نہ ہوں اور قتل کے ہوں… شاید مجرم پکڑے بھی جائیں مگر پھر وہی سالوں تک عدالتوں میں سماعت۔ ناکافی شہادتوں اور عدم ثبوت کی بناپر رہائی ہوہی جاتی ہے۔ لوگ بھی بھول جاتے ہیں حتیٰ کہ فریادی بھی بھول جاتا ہے کہ اصل قصہ کیاتھا۔ کیوں کہ کتنے ہی فریادی ،کتنے ہی گواہ فیصلہ آنے تک انتظار کی اذیت سہتے ہوئے انتقال کرجاتے ہیں اور کچھ مخالفین اور مجرموں کیطرف سے دبائو کا شکار ہو کر کیس سے دست بردار ہو جاتے ہیں۔
اپنی زندگی کو اپنے ہاتھوں ختم کر دینا ایک مشکل اور تکلیف دہ احساس ہے۔ لیکن کب انسان جینے کے ہاتھوں تنگ آکر مرنے کی سعی کرتا ہے۔ اور اپنی اداسی اور بے بسی کو ٹھکانے لگانے کے لئے خود کشی کی طرف چل پڑتا ہے، کوئی بھی اندازہ نہیں کر سکتا۔ یاد رکھیں جب کوئی شخص خودکشی کرتا ہے تو اس کا قاتل اس کے اردگرد کا معاشرہ ہوتا ہے، خواہ وہ اپنے آپ کو لاعلم رکھنے کی کوشش کریں حقیقتاً وہی قاتل ہیں۔
پاکستان میں نوجوانوں اور طلباء میں خودکشی کے رجحان میں دن بہ دن اضافہ ہوا رہا ہے۔ قریباً 15 سے بیس افراد روزانہ خودکشی کے مرتکب ہو رہے ہیں، حضوصاً سندھ میں خودکشی کا رجحان اور تناسب بڑھ رہا ہے۔
خودکشی کی وجوہات پر غور کریں تو ناآسودگی ، یاسیت، اضطراب، بے اعتباری اور عدم اعتماد بڑی وجوہات ہیں۔ کبھی کبھی نادانستی میں گھر کے افراد بھی کسی فرد کو خودکشی پر مجبور کر دیتے ہیں۔ خاص طور پر بچوں میں مقابلے کے رجحان کو بڑھاوا دینا۔ زیادہ نمبروں کا حصول ذہنی دبائو کا سبب بنتا ہے۔ اسی طرح نوجوانوں میں بھی تعلیمی میدان میں مقابلہ ، یک طرفہ یا دو طرفہ محبت میں ناکامی، دفتری معاملات ، ذہنی دبائو کی وجہ بن جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ بدنامی یا ناکامی کا خوف، والدین اور اساتذہ کی طرف سے ذہانی اور جسمانی ذیادتی، کسی بھی عمر میں زیادتی، طویل یا دائمی علالت اکیلا پن بھی ناامیدی اور بے توقیری کا سبب بن جاتے ہیں۔ بہت سے معاملات میں کچھ ذہنی بیماریاں بھی خودکشی کا سبب بنتی ہیں۔ عام طور پر خودکشی کرنے والا اپنے آپ کو پھندا لگا لیتا ہے یا گولی مار لیتا ہے کچھ لوگ اونچائی سے کود کر یا پانی میں ڈوب کر زندگی سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اور کچھ لوگ زہر خورانی یا خود کو آگ لگا کر خودکشی کی کوشش کرتے ہیں، چونکہ ہمارے ملک میں خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اس لئے ضروری ہے کہ ملک میں Psychoeducation Campagin چلائی جائے جو دماغی صحت اور خودکشی کے رجحان سے متعلق ہو۔
اگر گھر میں کوئی فرد مایوسی ، یاسیت یا ذہنی دبائو کا شکار ہو تو اسے تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اس سے زیادہ بات کرنے کی کوشش کرنا چاہیے اسے بولنے کا موقع دے کر زیادہ سننے کی کوشش کرنا چاہیے ایسے شخص کو اس بات کا بہت زیادہ احساس دلانا چاہیے کہ وہ بہت اہم ہے اور سب لوگ اس سے بہت محبت کرتے ہیں اور یہ کہ سب لوگ اس کے ساتھ ہیں، خواہ حالات چاہے کیسے بھی ہوں۔
اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی دھیان رکھنا چاہیے کہ گھر میں ایسے وسائل اور اشیاء نہ ہوں جس سے خودکشی کی جا سکے یہ ساری چیزیں بہت معمولی محسوس ہوتی ہیں، مگر یہ انتہائی اہم ہیں۔ آج کل کے زمانے میں سائبر کرائمز بھی بہت بڑھ گئے ہیں۔ اس کے لئے بھی لوگوں خصوصاً نوجوانوں کو آگہی کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی بلیک میلنگ آگہی بھی ضروری ہے۔ مل جل کر رہنا اور دکھ درد بانٹنا بہت ضروری ہے۔ایک مسکراہٹ، محبت بھرا جملہ، تعریف کے دو بول ، کسی کی ہمت افزائی کتنی قیمتی ہوتی ہے۔ کبھی کبھی یہ کسی کے جینے کا سبب بھی بن جاتی ہیں۔
ہم ایک سنگدل عہد میں زندہ ہیں جہاں آئے دن لوگ مر رہے ہیں کہیں غربت تو کہیں بے روزگاری ، ٹریفک کے حادثات اور جعلی ادویات اور ملاوٹ والی اشیاء خوردو نوش کہیں ڈکیتی کی واردات تو کہیں زیادتی کے بعد قتل لیکن ہمیں یہ خبریں متوجہ ہی نہیں کرتیں کہ یہ روز کا معمول ہو گیا ہے۔ ہم انسانی جان کی اہمیت کا شعور نہیں رکھتے حالانکہ انسانی زندگی قدرت کا حسین ترین تحفہ اور انسان کی عزیز ترین متاع ہے نوجوان!کیوں نہ ایسے نظام کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈالیں جو انسانی زندگی کی حفاظت کر سکے۔