اسلام آباد (نمائندہ جنگ ، جنگ نیوز) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کشمیر پر خاموشی، سنکیانگ پر بات ،مغرب کا دہرا معیار،اب وقت آ گیا ہے دنیا بھارتی مظالم پر آواز بلند کرے،مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے انسانی حقوق کی بدترین پامالی کی۔
90 لاکھ افرا د بدترین حالات میں کھلی جیل میں رہنے پر مجبور ہیں، عالمی امن مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل سے جڑا ہو ا ہے ، دنیا اپنی ذمہ داری ادا کرے،چین ہر مشکل میں ہمارے ساتھ کھڑا رہتا ہے،غربت ختم کرنے کیلئے چین کا ماڈل اپنانا چاہتے ہیں۔
زراعت میں بھی انکی مدد چاہئے،سی پیک نے پاکستان اور چین کو مزید قریب کردیا، دورہ چین کا منتظر ہوں،دورہ چین ہمیشہ باعث مسرت رہا، باہمی تعلقات مزید مستحکم ہوں گے،چین کیساتھ 70 سالہ پرانے دوستانہ تعلقات ہیں۔
سی پیک پاکستان اور چین کے درمیان بہترین منصوبہ ہے،عوام اور ریاستی ادارے سی پیک میں رکاوٹیں ڈالنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کیلئے پرعزم ہیں،دوسرے مرحلے میں زراعت اورصنعت پرتوجہ دی جائیگی،کورونا سے کھیل کی سرگرمیاں متاثر ہوئیں۔
خواہش ہے چینی کھلاڑیوں کو کرکٹ سکھائیں، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں کھیلوں کے میدان سے متعلق اسکیم پیش کرنے جارہے ہیں جس سے چین کے ساتھ تعلقات مزید مضبوط ہوں گے، ماضی میں معیشت پر توجہ نہیں دی گئی ، میں نے معیشت پر خصوصی توجہ دی ہے،40سال بعد افغانستان میں امن کا موقع ملا۔
چار کروڑ افغانوں کو فوری امداد کی سخت ضرورت ہے، مغربی طاقتیں بغیر کسی حل کے افغانستان کو ایسے ہی نہیں چھوڑ سکتیں، دنیا افغانستان کو انسانی بحران سے بچانے میں تعاون کرے۔ہفتہ کو چینی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ وقت کے ساتھ دونوں ممالک میں تعلقات مضبوط ہورہے ہیں۔
چین ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا، اور ہم پڑوسی بھی ہے، جب قراقرم ہائی وے تعمیر کیا گیا تو میں اسکول میں تھا وقت کے ساتھ ساتھ تو یہ تعلقات گہرے ہوئے ہیں اور مضبوط ہورہے ہیں، یہ پہلا اولمپکس دیکھوں گا، چین کے لوگ کرکٹ نہیں کھیلتے لیکن بطور کھلاڑی چین میں اولمپکس دیکھنا میرے لیے بہت دلچسپ ہوگا۔
عالمی وبا کے حالات سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عالمی وبا کے باعث تمام شعبوں کے ساتھ کھیل بھی متاثر ہوئے ہیں،گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے کئی علاقے ایسے ہیں کو اسکیم کے لیے بہترین مقامات ہیں، ہماری کوشش ہے کہ ہم گلگت بلتستان میں اسکیم پر توجہ دیں، جیساکہ چین میں سرمائی کھیلوں کو زیادہ توجہ دی جاتی ہے، تو اس سے چین سے تعلقات مزید بہتر ہوں گے۔
جمہوری منصوبہ بندی سے متعلق چینی صحافی کے سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ ساری دنیا نے تسلیم کیا ہے کہ چین نے 35 سے 40 سال میں اپنے ملک کو غربت سے نکالا ہے، یہ انسانی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا اور یہ ہی اقدام چین کے حوالے سے ساری دنیا کو متاثر کرتا ہے،میر ا اہم مقصد لوگوں کو غربت سے نکالنا ہے۔
جب میں چین گیا تو میں نے غربت ختم کرنے کا طریقہ کار جاننے کی ہی کوشش کی اور یہ ہی وجہ ہے کہ ہم پاکستان میں چین کا ترقیاتی ماڈل تقلید کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اس کے ذریعے چین نے ترقی میں وسیع حصہ شامل کیا ہے، چین نے ایسی ترقی کی کہ اس کے ساتھ تمام آبادی کو بھی ترقی ملی۔
پاک چین اقتصادی تعلقات کے حوالے سے کہا کہ چین نے اپنی معیشت کو نمو و نما دیتے ہوئے غربت کو ختم کیا، جب ان کی دولت میں اضافہ ہوا تو انہوں نے اسے نچلے درجے تک منتقل کیا،ہماری بھی یہ ہی کوشش ہے کہ ہم اپنی معیشت کو بڑھانے پر زور دیں۔
انہوں نے کہاکہ ایسا نہیں ہے کہ ہم سلامتی پر توجہ نہیں دے رہے لیکن ہماری خاص توجہ معیشت پر ہے تاکہ ہماری دولت میں اضافہ ہو اور ہم لوگوں کو غربت سے نکال سکیں۔
سی پیک اور چینی تعاون کے حوالے سے وزیر اعظم نے کہا کہ در اصل سی پیک کے پہلے مرحلے میں روابط بڑھانے اور توانائی کی پیداوار پر توجہ دی گئی، اب سی پیک دوسرے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے جس کے تحت صنعتوں کو منتقل کرتے ہوئے زونز بنائے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم خاص طور زرعی شعبے کی پیداوار میں اضافے کیلئے مدد چاہتے ہیں کیونکہ چین میں زرعی پیداوار پاکستان سے کئی زیادہ ہے، چین میں کپاس کی نئی اقسام تیار کی گئی ہیں اور ہمارے پاس بے شمار اراضی موجود ہے جہاں کپاس اگائی جاتی ہے۔
اس لیے زرعی پیداوار میں ہمیں چین کی مدد درکار ہے اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی ہمیں چین کی معاونت کی ضرورت ہے، ٹیکنالوجی کا انقلاب دنیا کا مستقبل ہے۔