اسلام آباد (نمائدہ جنگ) عدالت عظمیٰ ٰنے سندھ میں بلدیاتی اداروں کو مضبوط کرنے کیلئے دائر متحدہ قومی مومنٹ( ایم کیو ایم) کی آئینی پٹیشن نمٹاتے ہوئے قرار دیا ہے کہ مقامی حکومتوں کا قیام آئین کا تقاضا ہے، سندھ میں بلدیاتی اداروں کو مالی، انتظامی اور سیاسی اختیارات دیئے جائیں، عدالت نے اپنے فیصلے میں سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ مجریہ 2013کی شق 74 اور 75 کالعدم قرار دیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ سندھ حکومت تمام قوانین کی آرٹیکل 140 اے سے ہم آہنگی یقینی بنائے۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل پر مشتمل تین رکنی بینچ نے منگل کو بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانے کیلئے دائر ایم کیو ایم کی درخواست پر محفوظ فیصلہ صادر کیا۔
فیصلہ چیف جسٹس گلزار احمد نے پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 140 کے تحت لوکل گورنمنٹ کا قیام عمل میں آتا ہے اور قانون کے تحت لوکل گورنمنٹ کو مقامی حکومت اور بلدیاتی اختیارات حاصل ہیں۔
صوبائی حکومت کو ہدایت کی گئی ہے کہ آئین کے مطابق مقامی حکومتوں کو مالی، انتظامی اور سیاسی اختیارات کی منتقلی اور بلدیاتی اداروں سے متعلق تمام قوانین کو آئین کے آرٹیکل 140اے سے ہم آہنگ بنایا جائے، قرار دیا گیا ہے کہ سندھ حکومت مقامی حکومتوں کیساتھ اچھا ورکنگ ریلیشن رکھنے کی پابند ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بلدیاتی حکومت کے تحت آنے والا کوئی نیا منصوبہ صوبائی حکومت شروع نہیں کر سکتی،ماسٹر پلان بنانا اور اس پر عملدرآمد کرانا لوکل باڈیز کے اختیارات ہیں۔مقدمہ نمٹاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سندھ حکومت بااختیار بلدیاتی ادارے قائم کرنے کی پابند ہے۔سندھ حکومت کو ہدایت کی گئی ہے کہ قوانین کی ان شقوں میں تبدیلی کی جائے جہاں صوبائی اور مقامی حکومتوں کے اختیارات میں تضاد ہے۔
عدالت نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ایکٹ اور کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) ایکٹ کو آئین کے مطابق ڈھالنے جبکہ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور حیدرآباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قوانین بھی آئین کے مطابق تبدیل کرنے کا حکم دیا۔ فیصلے میں ہدایت دی گئی ہے کہ لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی، واٹربورڈ، سیہون ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور لاڑکانہ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے قوانین میں بھی ضروری ترامیم کی جائیں۔
عدالت کا یہ فیصلہ متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کے خلاف دائر درخواست پر سنایا گیا۔بلدیاتی اختیارات کیلئے پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم نے 2017 میں درخواستیں دائر کی تھیں۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن(کے ایم سی)کو شہر پر مطلوبہ اختیارات حاصل نہیں ہیں۔سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی درخواست الگ رکھتے ہوئے ایم کیو ایم کی درخواست پر 26 اکتوبر 2020 کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔