• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

جے یو آئی میں شمولیت کیلئے بلوچ رہنماؤں سے رابطے

اب جبکہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ سے قبل ہی مستعفی ہونے اور عبدالقدوس بزنجو کو وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تین ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس دوران بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل ایک پریس کانفرنس میں یہ کہہ چکے کہ ان کی جماعت جام کمال خان کو نکالنے کے ثواب میں تو شامل تھی لیکن میر عبدالقدوس بزنجو کو وزیراعلیٰ بنانے کے گناہ میں شامل نہ تھی جس پر سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان کا ٹوئٹر پر ردعمل فوری طور پر سامنے آیا تھا۔ 

بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں جمعیت علما اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی و دیگر نے سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان کے خلاف عدم اعتماد میں کردار ادا کیا تھا ، تاہم اپوزیشن کی جماعتوں کی جانب سے یہ بات باضابطہ طور پر نہیں کی گئی تھی ، اب تین ماہ کا عرصہ گزرنے کے بعد بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن ثنا بلوچ کی جانب سے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں یہ بات سامنے آئی کہ حکومت کی تبدیلی کے لئے موجودہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان 24 نکاتی معاہدہ ہوا تھا لیکن اسمبلی کے اگلے اجلاس میں سنیئر صوبائی وزیر پی اینڈ ڈی میر ظہور بلیدی نے کہا کہ بحیثیت بی اے پی کے قائم مقام صدر و پارلیمانی لیڈر واضح کرتا ہوں کہ اپوزیشن کے ساتھ اس قسم کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا اگر کسی کے ساتھ کوئی معاہدہ ہوا ہے تو اسے اسمبلی فلور پر لایا جائے تاکہ پتہ چلے کہ یہ معاہدہ ذاتی نوعیت کا ہے یا اجتماعی نوعیت کا ہے۔ 

اسی اجلاس میں حکمران جماعت بی اے پی کے رکن میر سلیم کھوسہ نے کہا کہ جس معاہدے کی گونج بار بار سنائی دے رہی ہے اگر واقعی کوئی چوبیس نکاتی معاہدہ ہوا ہے اور وہ صوبے کے مفاد میں ہے تو میں اپوزیشن کے ساتھ کھڑا ہوں لیکن معاہدے کو اس ایوان میں تو لایا جائے تاکہ پتہ چل سکے کہ یہ معاہدہ صوبے کے مفاد میں ہے یا کسی کی ذاتی نوعیت کا تھا ، تاہم اس کے بعد سے اس حوالے سے صوبائی حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے خاموشی چھائی ہوئی ہے ، دوسری جانب بظاہر یوں محسوس ہورہا ہے کہ سیاسی جماعتوں نے بلوچستان میں آئندہ عام انتخابات کے لئے اپنی قوت میں اضافے کی کوششوں کا آغاز کردیا ہے۔ 

پہلے سابق وزیراعلیٰ چیف آف جھالاوان نواب ثنا اللہ خان زہری ، سابق وفاقی وزیر جنرل(ر) عبدالقادر بلوچ کی پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت سے پی پی پی کو سیاسی حوالے سے کافی تقویت ملی ، 6 فروری کو بلوچستان کے نصیرآباد ڈویژن کے علاقے روپا گوٹھ سردار اللہ بخش عمرانی میں پی پی پی کے چیئر مین بلاول بھٹو اور کو چیئر مین آصف علی زرداری گرینڈ شمولیتی جلسہ سے خطاب کریں گے جس میں سردارزادہ بابا غلام رسول عمرانی سمیت اہم سیاسی شخصیات پی پی پی میں شمولیت کا اعلان کریں گی جلسے کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ 

دوسری جانب پی پی پی بلوچستان کی صوبائی قیادت جلد مزید سیاسی شخصیات کی پارٹی میں شمولیت کے حوالے سے پرامید ہے ، ہفتہ رفتہ کے دوران پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے قائد جمعیت علما اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمٰن بھی بلوچستان کا دورہ کیا ، جمعیت علما اسلام بلوچستان میں ایک اہم اور موثر سیاسی جماعت کے طور پر ہمیشہ نہایاں رہی ہے جس کا یوں تو پورئے صوبے میں ایک مضبوط ووٹ بینک موجود ہے لیکن صوبے کے پشتون علاقے میں پارٹی کا ووٹ بینک بلوچ علاقے کے مقابلے میں زیادہ مضبوط رہا ہے۔ 

اس وقت بھی جمعیت علما اسلام نہ صرف بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ہے بلکہ اس کی صوبے سے قومی اسمبلی میں بھی موثر نمائندگی ہے ، 65 رکنی بلوچستان اسمبلی میں جمعیت علما اسلام کے ارکان کی تعداد 14 ہے جن میں سے بڑی اکثریت صوبے کے پشتون اضلاع سے منتخب ہوکر آئی ہے،سیاسی ماہرین کے مطابق جمعیت علما اسلام اب بلوچستان کے بلوچ علاقے کی اہم سیاسی شخصیات کی حمایت حاصل کرنے میں بڑی حد تک کامیاب نظر آرہی ہے۔ 

مولانا فضل الرحمٰن اپنے کچھ ہی عرصہ قبل دورہ کوئٹہ کے دوران ایک ملاقات میں سابق وزیراعلیٰ بلوچستان چیف آف سراوان نواب محمد اسلم رئیسانی جو اس وقت بھی بلوچستان اسمبلی کے آذاد رکن ہیں کو پارٹی میں شامل ہونے کی دعوت دئے چکے ہیں جس کے بعد نواب محمد اسلم رئیسانی نے اس ضمن میں کوئی بھی فیصلہ اپنے حلقے کے عوام ، قبائیلی عمائدین و دیگر کی مشاورت سے کرنے کے لئے مولانا فضل الرحمٰن وقت مانگا اور اس کے بعد اس حوالے سے ان کی رہائش گاہ پر ایک جرگہ ہوا جس کے شرکا نے اس سلسلے میں نواب محمد اسلم رئیسانی کو شامل ہونے کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیدیا ، جب کے جمعیت کی صوبائی قیادت کے مطابق صوبے کے اہم بلوچ سیاسی رہنماوں کی پارٹی میں شمولیت کے حوالے سے رابطے جاری ہیں۔ 

اہم سیاسی رہنماوں کی شمولیت سے جمعیت علما اسلام کی صوبے میں پارلیمانی قوت میں مزید اضافے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے جبکہ بعض سیاسی حلقوں کی رائے ہے کہ ابھی آئندہ عام انتخابات کے انعقاد میں کافی وقت ہے اس لئے بعض اہم سیاسی شخصیات کی جانب سے اس سلسلے میں فیصلے کچھ عرصے بعد کیے جانے کا امکان ہے ،اس دوران بلوچستان کی دو اہم قوم پرست سیاسی جماعتوں بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخوامیپ کے انٹرا پارٹی انتخابات بھی ہوئے پہلے 22 سے 24جنوری تک بلوچستان نیشنل پارٹی کا تین روزہ قومی کونسل سیشن ہوا جس میں انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے جن میں سردار اختر مینگل صدر ، ملک عبدالولی کاکڑ سینئر نائب صدر ، آغا موسی جان نائب صدر ، واجہ جہانزیب بلوچ سیکرٹری جنرل اور دوسرے عہدیدار منتخب ہو گئے۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید