• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی سیاست طلسم کدہ ہے سندھ میں جوسیاسی پارٹیاں دست وگریباں نظرآتی ہیں اور وفاقی حکومت کے خلاف مورچہ نکلنے کا فیصلہ کن عندیہ دیتی نظرآتی ہیں وہی جماعتیں مرکز میں اسٹیٹ بنک خودمختاری بل پر باہم شیروشکر اور یک جاں نظرآتی ہیں یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ وفاق اور صوبے میں احتجاجی ریلیوں کی سیاست ڈوریاں ہلانے پر منعقد کی جارہی ہیں سندھ میں تقریباً تمام سیاسی جماعتیں پی پی پی حکومت کے خلاف علیحدہ علیحدہ محاذ بنائے ہوئے ہیں اور تحریک ، ریلیاں، احتجاج، دھرنے دے رہی ہے بلدیاتی انتخابات کی کرنیں پوری طرح سےطلوع بھی نہیں ہوئی کہ تقریباً تمام سیاسی جماعتیں کراچی کی مسیحائی کے دعویداری کی صورت میں سامنے آنے لگی ہے۔ 

بلدیاتی ترمیم پر جماعت اسلامی کے 29 روزہ دھرنے احتجاج اور بعدازاں کراچی کی پانچ اہم شاہراہیں بند کرنے کی دھمکی کے بعد ایم کیو ایم کے وزیراعلیٰ ہاؤس پر دھرنےاور پرامن احتجاج پر پولیس چڑحائی کے بعد سندھ حکومت کو راتوں رات بلدیاتی ترمیمی بل کو کالاقانون تسلیم کرنا پڑا اور انہوں نے رات گئے جماعت اسلامی سے ترمیمی بل پر معاہدہ کرلیا جبکہ پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ بلدیاتی ترمیم کو کالا بل کہنے والے کا منہ کالا ہوگا اور صوبائی وزیر سعیدغنی نے کہا تھا کہ 2 ہزار ٹیم بھی بیٹھے ترمیم واپس نہیں ہوگی۔

معاہدہ کے بعد جماعت اسلامی نے اپنا دھرنا ختم کیا اور جشن فتح بھی منایا تاہم کہا جارہا ہے کہ پی پی پی ایم کیو ایم کے احتجاج اور اس احتجاج کے بعد ایم کیو ایم کے ایک کارکن اسلم کی مبینہ موت جیسے ایم کیو ایم پولیس تشدد کا شاخسانہ جبکہ پی پی پی ذرائع ہارٹ اٹیک قرار دیتے ہیں سخت دباؤ میں آگئی تھی ایم کیو ایم کے احتجاج میں پولیس تشدد سے ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی صداقت حسین لاٹھی لگنے سے زخمی ہوگئے تھے ایم کیو ایم کے احتجاج کے بعد کراچی کی سیاست کا پانسہ ایم کیو ایم کی جانب جاتے دیکھ کر کہاجاتا ہے کہ پی پی پی حکومت نے جماعت اسلامی کے مطالبات رات 2 بجے کے قریب مان لیے اور بلدیاتی ترمیمی بل 2021 کے میئر کے اختیارات کی منظوری کے لیے اجلاس طلب کرلیا۔ 

معاہدہ کے مطابق سندھ کا بینہ مبینہ طور پر میئر کراچی کو واٹر بورڈ کا چیئرمین آکٹرائے ٹیکس سندھ حکومت سے واپس لے کر میئر کے ماتحت کرنے کی بھی منظوری دے گی۔ایم کیو ایم نے اس معاہدہ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ متحدہ قومی موومنٹ 2013 کے بلدیاتی ایکٹ کو مسترد کرتی ہے۔ہم نے متبادل ایکٹ اسمبلی میں جمع کروایا ہوا ہے۔ جماعت اسلامی پیپلز پارٹی کی چالبازی کا شکار ہوگئی۔ 

جماعت اسلامی نے اپنے حصے کی بوٹی کے لئے بلدیات کا بکرا کاٹ دیا۔ کل رات نعیم الرحمن صاحب آئین کے آرٹیکل 140-A پراپنی حمایت کا اظہار کر رہے تھے شہر کے انتظامی ادارے اور لوکل کونسلز کے حقوق کی بات کر رہی تھی رات کے اندھیرے میں یکسر ایسا کیا ہوگیا کہ شہر کی تقدیر کا ودا ہوگیا۔

ہم نے اپنے بلدیاتی ترمیمی ایکٹ پر تجاویز تمام سیاسی جماعتوں کو فراہم کر دی ہیں دوستوں کی آرا کے بعد اسکو حتمی طور پر میڈیا کو دکھایا جائے گا۔رکن رابطہ کمیٹی و ممبر صوبائی اسمبلی جاوید حنیف وفاقی حکومت جنرل سیلز ٹیکس کا شئیر بھیجتی ہے۔2013 سے قانون بننے تک صوبائی مالیاتی کمیشن بنا ہوا ہے۔ ایسا بے اختیار صوبائی مالیاتی کمیشن نہیں چاہئے جو آزاد نہ ہو۔جماعت اسلامی کو لالی پاپ دیا گیا ہے۔ 

جاوید حنیف جدوجہد جاری رہے گیرکن رابطہ کمیٹی و ممبر صوبائی اسمبلی محمد حسین کل رات کے اندھیرے میں ایک ایگریمنٹ پر دستخط ہوئے یہ جماعت اسلامی کے کردار پر سوالیہ نشان ہےجماعت اسلامی شہر کے بلدیاتی ایکٹ کے خلاف ماضی میں پیپلز پارٹی کا ساتھ دیاجماعت اسلامی کا کل رات کا عمل انکے کردار کی وضاحت کرتا ہے جماعت اسلامی نے پیپلز پارٹی کا موقف اور کالا قانون مان لیا۔ جبکہ جی ڈی اے کے جنرل سیکریٹری سردار رحیم نے کہا کہ کالا قانون رات کے اندھیرے میں سفید کیسے ہوگیا؟ 

جماعت اسلامی اور سندھ حکومت کے درمیان معاہدہ کے باوجود پاک سرزمین پارٹی نے بھی اس معاہدہ کو مسترد کردیا ہے اور انہوں نے احتجاجاً گورنر ہاؤس کے قریب فوارہ چوک پر دھرنا دے دیا ہے اور کہا ہے کہپی ایف سی کے فارمولے کے بغیر مئیر کے نیچے تمام ادارے بے معنی ہیں۔ پیپلز پارٹی خوشی خوشی ادارے دینے کو تیار ہے لیکن اصل مسئلہ انکے وسائل کا ہے جو پیپلزپارٹی کی کرپٹ اور متعصب حکومت دینے کو تیار نہیں۔ ہمیں صرف اختیارات نہیں وسائل بھی چاہئیں۔ 

پیپلزپارٹی کو کراچی سے کشمور تک کے عوام کے اختیارات اور وسائل دینے ہونگے۔ سندھ حکومت نے ادارے قبضے میں کام کرنے کے لیے نہیں رکھنے بلکہ انکا بجٹ اپنے پاس رکھنے کیلئے رکھے ہیں۔ پیپلز پارٹی اداروں کو بنانا نہیں چاہتی بلکہ انہیں اجاڑ کر انکے وسائل ہتھیا کر اس سے کرپشن کرنا چاہتی ہے۔ پیپلز پارٹی ہمیں بے وقوف نہیں بنا سکتی۔ جب تک ہماری بات نہیں مانی جاتی، ہم یہیں بیٹھے رہیں گے۔ 

اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ دھرنا کب تک جاری رہے گا اور اس کے کیا نتائج نکلتے ہیں بہرحال ایک بات تو طے ہیں کہ سندھ حکومت کی جانب سے ایم کیو ایم کے پرامن احتجاج پر پولیس کی چڑھائی نے ایک جانب مہاجرقومی موومنٹ آفاق احمدکے سیاست کو بیک فٹ پرکردیا ہے تو دوسری طرف متحدہ قومی موومنٹ کو یکجا کردیا ہے۔ 

اس واقعہ کے بعد ڈاکٹرفاروق ستار بھی بہادر آباد آگئے جبکہ تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے ایم کیو ایم کے ساتھ اظہار ہمدردی ویکجہتی کیا وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی سیاسی فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے جاں بحق کارکن اسلم کے گھر تعزیت جبکہ ایم پی اے صداقت حسین کی عیادت کی جس سے شہر میں لسانی آگ روکنے میں مددملی جبکہ گورنرسندھ نے بھی بالترتیب دونوں کے گھروں میں جاکر تعزیت وعیادت کی۔ پی پی پی نے متحدہ قومی موومنٹ کو آڑے ہاتھوں لیا اور صوبائی وزیر امتیازشیخ نے کہاکہ بلدیاتی بل پر اپوزیشن جماعتیں ایک پیج پر نہیں اپوزیشن جماعتوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں کچھ جماعتوں کی خواہش ہے کہ وزیراعلیٰ کے اختیارات میئر کے حوالے کردیئے جائیں۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید