کراچی (ٹی وی رپورٹ) ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی مشترکہ پریس کانفرنس پر جیو کی خصوصی نشریات میں گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا ہے کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کا اکھٹا ہونا ہی پی ڈی ایم کو مضبوط کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا اس وقت جو ملاقات ہوئی ہے اس میں کوئی بہت بڑا بریک تھرو ہوا ہے۔
تجزیہ کار منیب فاروق نے کہا کہ یہ کوئی پہلا موقع تو نہیں ہے کہ بلاول بھٹو تشریف لائے ہیں شہباز شریف کے گھر پر اس سے پہلے بھی یہ آئے تھے اور یہ متعدد دفعہ اس ارادے کا میرے خیال میں بتا چکے ہیں کہ ہم حکومت سے جان چھڑوانا چاہتے ہیں اور پی ڈی ایم دیکھ لیجئے پی ڈی ایم سے پاکستان پیپلز پارٹی کا نکلنا دیکھ لیجئے یہ ارادے تو اپنی جگہ موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر اس کی پریکٹیکل سائیڈ دیکھیں یہ بات fact ہے اس وقت ملک میں مہنگائی ہے اور ریکارڈ مہنگائی ہے حکومت کے حوالے سے ایک تاثر قائم ہے بہت مہنگی حکومت ہے اور لوگ پریشان ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ حیرت ہوتی ہے مجھے کہ جہاں شہباز شریف نے فرمایا کہ ہم تو سگنلز پر چل رہے ہیں بھئی احترام کے ساتھ پوری اپوزیشن تو سگنل کے انتظار میں ہے اب سے نہیں ہے بڑے عرصے سے ہے اور یہ سگنل matterکرتے ہیں،
ان کا کہنا تھا کہ آ ج بھی اگر اپوزیشن نے کچھ کرنا ہے کامیاب ہونا ہے تو ان کو میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا میں اب بھی کہوں گا کہ انہیں وہ سپورٹ درکار ہے وہ اپنے اپوزیشن کے اتحادیوں کے اوپر بھی اعتبار نہیں کر سکتے کہ کیا یہ ہمارے ساتھ کھڑے ہونگے کیا پوری اپو زیشن یکمشت ووٹ دے گی عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد میں اس میں بھی ایشو ہیں۔
عمران خان کی حکومت کو مسئلہ یہ اپنی جگہ موجود ہے کہ وہ ایک تو مہنگی حکومت کا perceptionلیکر چل رہی ہے عوام پریشان ہے مہنگائی عروج پر ہے بیشک وہ اعداد و شمار دکھاتے ہیں کہ ہم نے اتنا سب کچھ کرنا ہے لیکن اگر اس کے باجود جو bad luckہوتا ہے کسی حکومت کے لیے وہ یہ ہوتا ہے کہ عوام آ پ سے کتنے خوش ہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ آ ج پاکستان کی عوام عمران خان سے خوش ہے کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت ڈیلیور کر پائے گی پانچ سال مکمل کرنے پر اور دوبارہ عمران خان صاحب کو وہ electکرنا چاہیں گے یہ ملین ڈالر questionہے اور اس کا جواب الیکشن میں ہی مل سکتا ہے۔
تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا کہ ملاقات میں اس سے زیادہ اور کچھ نظر نہیں آتا مسلم لیگ ن بھی بہت آ گے چلی گئی تھی پیپلز پارٹی کے حوالے سے اور پیپلز پارٹی بھی بہت آ گے چلی گئی تھی مسلم لیگ ن کے حوالے سے لیکن جو قومی اسمبلی میں منی بل کے اوپر ہوا جو سینیٹ کے اندر اسٹیٹ بینک والے پر ہوا اس میں شاید یہ realization سامنے آ ئی ہے کہ اگر ہمارا لانگ مارچ بھی meaninglessہوگا تو ہم اکھٹا نہیں ہونگے۔
آ ج کی ملاقات کے بعد جو باڈی لینگویج نظر آئی مجھے وہ مریم نواز یک طرف کھڑی تھیں بلاول بھٹو دوسری طرف کھڑے تھے اور بیچ میں شہباز شریف کھڑے تھے اور یہی ان دونوں کی سیاست کے بیچ میں شہباز شریف کھڑے ہیں تو extremeہیں جن کے بیچ میں شہباز شریف ان کو ملانے کی کوشش کر رہے ہیں تو مجھے نہیں لگتا اس وقت آ ج کی جو ملاقات ہے اس میں کوئی بہت بڑا break throughہوا ہے کیونکہ ملاقات سے پہلے اگر فیڈرل کمیٹی کا اجلاس بلایا جاتا تو زیادہ مناسب ہوتا۔
آپ کس لائحہ عمل کے ساتھ جائیں گے ۔ مسلم لیگ ن اورپیپلز پارٹی ہی پی ڈی ایم ہیں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا اکھٹا ہونا ہی پی ڈی ایم کو مضبوط کرے گا اکھٹا نہیں ہونگے تو پی ڈی ایم اپنے راستے پر کھڑی ہوگی۔