• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سخت مارشل لا کا زمانہ تھا سیاست اور صحافت پر پابندی تھی ایسےمیں سیاسی کارکنوں کے لیے دیواروں پر ’’چاکنگ‘‘ ، پوسٹر اور پمفلٹ ہی اظہار کا واحد ذریعہ تھے لوگوں تک خبریں پہنچانے کایا پھر کالجوں اور جامعات میں طلبا تنظیموں کے ذریعے احتجاج کرنا مگر پھر 9 فروری 1984کو ایک آمرانہ حکم کے ذریعہ ملک بھر میں طلبا یونینوں پر پابندی لگا دی گئی یہ کہہ کر کہطالب علموں کا کام صرف تعلیم حاصل کرنا ہے جس کے جواب میں طالب علم رہنمائوں نے کہا، آپ کا کیا کام ہے آئین توڑ کر حکومت کرنا۔آج اس بات کو 38 سال بیت گئے۔چند ماہ پہلے جامعہ کراچی جانے کا اتفاق ہوا ۔کلاسوں کے باہر لابی اور اردگرد طلبہ و طالبات کے علاوہ رینجرز کے اہلکار بھی نظر آئے اور کلاسوں کے اندر کچھ حاضر سروس طلبہ بھی۔ ایک زمانہ تھا جب پولیس جامعہ میں آنا چاہتی تھی تو وائس چانسلر انکار کر دیتے تھے۔ یہ تعلیمی ادارے جمہوریت کی مضبوط نرسری ہوا کرتے تھے جو اب مر جھا گئی ہے اور مجال ہے کسی سویلین حکومت کی کہ اسے بحال کر کے دکھائے؟

اب سیاست آسان ہو گئی ہے ۔بس کچھ لو اور کچھ دو، کم از کم اب سیاسی کارکنوں کو چاکنگ کرنے، پوسٹر لگانے (ماسوائے کالعدم تنظیموں کے) گرفتاری یا سزائوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ورنہ پرنٹنگ پریس تک سیل کر دیا جاتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب بے نظیر بھٹو خود اپنے کارکنوں کو بلیک بورڈ پر چاک سے وال چاکنگ کیسے کرتے ہیں اور پوسٹر لکھنے کا طریقہ بتاتی تھیں کبھی 70کلفٹن میں تو کبھی کسی کارکن کے گھر۔ دوسری طرف بائیں بازو کے لوگ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے۔ ریاست کا جبر ہی انڈر گرائونڈ یا زیر زمین سیاست کو فروغ دیتا ہے جو کسی بھی سمت جا سکتی ہے۔آج کی سیاست اور سیاست دانوں کو دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان میں سے چند ایک کو چھوڑ کر کوئی بھی جمہوریت کی ان نرسریوں سے نہیں آیا چاہے وہ عمران خان ہوں،شریف برادران یا بلاول بھٹو اور مریم نواز۔ البتہ آصف زرداری صاحب ایک زمانے میں کیڈٹ کالج پشاور جامشورو میں غالباً جناح ہائوس کے صدر منتخب ہوئے تھے۔

طلبا سیاست سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے تحمل، برداشت، ایک دوسرے کا نقطہ نظر سننا۔ آج ٹی وی پر ٹاک شوز اسٹوڈیو میں ہوتے ہیں۔ اس زمانے میں ہزاروں طلبا و طالبات کی موجودگی میں سیاست دان، پینل کے روبروسخت سوالات کا جواب دیا کرتے تھے۔ داد بھی ملتی تھی اور ہوٹ بھی ہوتے تھے۔ مگر برداشت اِدھر بھی تھی اُدھر بھی۔ انہی نرسریوں نے نامور سیاست دان بھی دیے اور پروفیشنل بھی۔ آج ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کو دیکھ کر کوئی کہہ سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں ڈاکٹر سرور مرحوم اور دیگر کےساتھ مل کر پہلی طلبہ تحریک کی قیادت کی جس کے جلوس پر 1953 میں گولی چلی اور 8 طالب علم شہید ہو گئے۔ یہ ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن جو بائیں بازو کی طلبہ تنظیم تھی اور فیسوں میں اضافے اور کتابوں کی عدم فراہمی پر احتجاج کر رہی تھی، پر پابندی کی ابتدا تھی۔

DSF پر پابندی لگی تو اس کی جگہ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن(این ایس ایف) نے لے لی جس پر حال ہی میں اس کے دو سابق طالب علم رہنمائوں ڈاکٹر حسن جاوید اور محسن ذوالفقار نے تین جلدوں پر مشتمل کتاب ’’سورج پہ کمند‘‘ شائع کی ہے جو ہر سیاسی کارکن کو پڑھنی چاہیے۔ اس سے پہلے ہمارے دوست ڈاکٹر ریاض شیخ نے DSF پر بھی ایک کتاب لکھی ہے۔ کالج اور جامعات میں صحت مندانہ سرگرمیوں کےساتھ نظریاتی سیاست بھی ہوتی تھی،ایسے ہی نہیں حسن ناصر اور نظیر عباس پیدا ہوئے جو کسی گیٹ کی پیداوار نہیں تھے۔ اسی لیے ٹارچر سیل میں مار دیے گئے۔بائیں بازو کی طرح دائیں بازو کی بھی سیاست مضبوط تھی جس میں نمایاں نام اسلامی جمعیت طلبا کا ہے مگر بعد میں ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت اسلحہ کے زور پر نظریاتی سیاست کو فروغ دیا گیا جس کا نقصان پورے معاشرے کو ہوا۔ جمعیت نے کئی رہنما جماعت اسلامی کو دیئے جن میں نمایاں نام لیاقت بلوچ، سید منور حسن اور سراج الحق کا ہے۔ بہت سے رہنما جن میں جاوید ہاشمی، خواجہ سعد رفیق، احسن اقبال مسلم لیگ میں چلے گئے جب کہ کچھ پاکستان تحریک انصاف میں بشمول اعجاز چوہدری کے۔ یہ دائیں بازو کے سیاست دان تھے مگر ان کابائیں بازو کے سیاست دانوں معراج محمد خان، امیر حیدر کاظمی، نفیس صدیقی، رضا ربانی ، عبدل حفیظ پیرزادہ، رشید رضوی وغیرہ سے ہمیشہ دوستی و احترام کا رشتہ رہا۔قوم پرست سیاست میں بھی طلبا کا بڑا اہم کردار نظرہے جس میں بلوچ اسٹوڈنٹس فیڈریشن، پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن، جئے سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن نمایاں تنظیمیں ہیں آج اگر ان میں سے کچھ نے ہتھیار اٹھا لیے ہیں تو آخرکیوں اور کس نے ان کو قلم کے بدلے اسلحہ دیا؟ اس سوال کا جواب ریاست نے دینا ہے۔

آپ کو ایک تسلسل نظر آئے گا کس طرح جمہوریت کی ان نرسریوں کو تباہ کیا گیا کیونکہ یہاں سے نوجوانوں کو سیاسی شعور کے ساتھ ساتھ دلیل سے قائل کرنا بھی سکھایا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک پاکستان سے لے کر ہر آمریت کے خلاف پہلی آواز جامعات سے ہی آتی تھی۔ اب تو ربورٹ پیدا کیے جا رہے ہیں اور ان پر بھی نظر رکھنے کے لیے ہر وقت ’’حاضر افراد‘‘ حاضر رہتے ہیں ۔1984 کو طلبا یونینوں پر پابندی لگی تو دائیں اور بائیں بازو کی طلبا تنظیموں نے مشترکہ ایکشن کمیٹی بنا کر بھر پور تحریک چلائی مگر جب تحریک کامیابی کے قریب تھی تو اچانک ایک دن جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل محمد مرحوم کا بیان آیا کہ طلبہ احتجاج ختم کر دیں اور اسلامی جمعیت طلبا جو کہتے ہیں میاں صاحب کے فیصلے سے خوش نہیں تھی تحریک سے نکل گئی۔ اب اس کی جو بھی وجہ ہو مگر اس کے بعد طلبا یونین کی بحالی کی کوئی موثر تحریک نہ چل سکی ورنہ تو چار ماہ تک طالبعلموں نے بھر پور جدوجہد کی اور تمام سرگرمیاں ٹھپ کر کے رکھ دی تھیں۔

فوجی آمر کا تو گزارہ مخالفین پر پابندی لگا کر ہوتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ سویلین حکمران طلبہ یونینوں سے خوف زدہ کیوں ہیں؟کیا المیہ ہے اس ملک کا ایک شخص متفقہ آئین کو یک جنبش قلم روند کر برسوں حکومت کرتا ہے مجال ہے اسے سزا ہو جائے البتہ آئین بنانے والا پھانسی چڑھ جاتا ہے۔ دوسری طرف ایک حکم نامے پر طلبا یونین پر پابندی تو لگ سکتی ہے مگر کسی وزیر اعظم کی یہ جرات نہیں ہو سکتی کہ اس پابندی کو ختم کر سکے۔ ایسا ہے تو پھر یہ نام نہاد جمہوریت کا ڈھونگ کیوں۔ نرسری مر جھا جائے تو جمہوریت کیسے پھل پھول سکتی ہے۔

تازہ ترین