• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

بلوچستان کی اپوزیشن جماعتیں وزیراعلیٰ کے قریب

بلوچستان میں پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام ماضی کی طرح ایک بار پھر گزشتہ دنوں خبروں کی زینت بنا رہا ، پہلے تو صوبائی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پی ایس ڈی پی وجہ تنازع بنتا رہا لیکن اس بار سنیئر صوبائی وزیر نے پی ایس ڈی پی پر تحفظات کا اظہار کردیا ، سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے احتجاج کے آغاز کا سبب بھی اپوزیشن ارکان کے حلقوں کو پی ایس ڈی پی میں نظر انداز کیا جانا بنا تھا ، جس کے بعد اپوزیشن کی جانب سے نہ صرف بلوچستان اسمبلی کے اجلاسوں میں پی ایس ڈی پی میں نظر انداز کیے جانے کے احتجاج کی باز گشت بار بار سنائی دیتی رہی بلکہ اپوزیشن پی ایس ڈی پی کے حوالے سے بلوچستان ہائی کورٹ بھی گئی۔ 

سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان کے مستعفی اور میر عبدالقدوس بزنجو کے وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے بعد بلوچستان اسمبلی کی اپوزیشن جماعتیں وزیراعلیٰ کے قریب نظر آئیں ، میر عبدالقدوس بزنجو سے نہ صرف ملاقاتوں بلکہ وزیراعلیٰ کے شہر کے دوروں سمیت مختلف مواقع پر بھی اپوزیشن کے ارکان اسمبلی ان کے ساتھ نظر آئے جس کے بعد سیاسی حوالے سے یہ توقع کی جارہی تھی کہ موجودہ وزیراعلیٰ کو اپوزیشن سے کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور اپوزیشن کی جو ناراضی اور گلے شکوئے سابق وزیراعلیٰ سے تھے۔ 

موجودہ وزیراعلیٰ سے نہیں ہوں گے جو اب تک اگرچہ ٹھیک ثابت ہوئی ہے لیکن حیرت انگیز طور پر گزشتہ دنوں بلوچستان کابینہ کے اجلاس سے وزیراعلیٰ کے انتہائی قریبی ساتھی سمجھے جانے والے سنیئر صوبائی وزیر منصوبہ بندی و ترقیات میر ظہور احمد بلیدی نے بعض منصوبوں کے لئے 30 ارب روپے سے زائد کی خطیر رقم کے منصوبوں کے مسلے پر کابینہ اجلاس سے واک آوٹ کیا اور پھر ٹوئٹر پر ایک ٹوئٹ میں کہا کہ عوام نے ہمیں مثالی گورننس ، بہترین مالی منصوبہ بندی اور ترقی کا مینڈیٹ دیا ہے نہ کہ سیاسی مصلحت پسندی کے تحت وسائل کے ضیاع کا ، انہوں نے کہا کہ میں نے یا کسی فرد نے اپنی رائے مسلط نہیں کی مجھ سمیت دیگر آئین و قانون کے ساتھ ساتھ پارٹی منشور کے پابند ہیں۔ 

پارٹی کی سطح پر اس معاملے کا فیصلہ کیا جائے گا ، یہاں یہ امر بھی قابل زکر ہے کہ میر ظہور احمد بلیدی صوبے میں حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کی جانب سے پارٹی کے قائم مقام صدر بھی کیے گئے ہیں یہ الگ موضوع ہے کہ سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان کا موقف ہے کہ وہ اب بھی پارٹی کے سربراہ ہیں ، صوبائی وزیرمواصلات و تعمیرات سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے کابینہ اجلاس کے بعد ایک بریفنگ میں کہا کہ ملک میں جمہوریت ہے اور ہر ایک کو کابینہ کے اجلاس میں اظہار رائے کی آزادی ہے۔

جبکہ وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا ہے کہ بلوچستان حکومت میں کوئی ناراض نہیں اور نہ ہی اپوزیشن کو کوئی فنڈز دیئے گئے ہیں حکومت نے محسوس کیا کہ جو علاقے تین سال کے دوران نظرانداز کئے گئے ہیں ان کو یکساں ترقی دینا ہمارا فرض ہے ، کابینہ اجلاس میں ایک صوبائی وزیر نے واک آؤٹ کیا تھا ، ہر رکن اسمبلی کا نظریہ یکساں نہیں ہوسکتا جمہوریت میں ہر ایک کو حق حاصل ہے کہ وہ مخالفت کرے تاہم فیصلے اکثریت سے ہوتے ہیں ایسا جمہوریت میں ہوتا رہتا ہے ہر ایک کی سوچ یکساں نہیں ہوسکتی۔ 

یاد رہے کہ بلوچستان کابینہ نے اپنے مذکورہ اجلاس میں بلوچستان صحت کارڈ پروگرام کے آغاز ، لوکل گورنمنٹ ترمیمی ایکٹ ، کسان کارڈ ، گندم خریداری پالیسی ، محکمہ مواصلات کے تین سو سے زائد معطل ملازمین کی بحالی ، گریڈ 1 تا 15 کی خالی اسامیوں پر بھرتی ، سبزل روڈ توسیعی منصوبے ، ریڈ زون کے خاتمے کے فیصلے کی توثیق اپوزیشن ارکان کے حلقوں کےلئے اسکیموں کی منظوری سمیت بڑئے پیمانے پر منصوبوں کی منظوری دی ، سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان نے بلوچستان صحت کارڈ پروگرام کی منظوری پر صوبائی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ٹوئٹر پر کہا کہ یہ پروگرام ہماری کابینہ میں پہلے ہی منظور کیا گیا تھا ، اس کی رسمی کارروائیاں کی گئیں اور یہاں تک کہ انشورنس کمپنی کا انتخاب بھی عمل لایا گیا تھا یہ افسوسناک ہے کہ موجودہ حکومت نے اسے کس طرح زیر التوا رکھا۔

سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان کی ٹوئٹ کا یہاں زکر اس لئے کیا گیا کہ سنیئر صوبائی وزیر منصوبہ بندی و ترقیات میر ظہور احمد بلیدی کے تحفظات کے بعد سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان بھی صوبے کی حکمران جماعت بی ائے پی کے مرکزی رہنما ہیں ان کی جانب سے صوبائی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے ، صوبے کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے ابھی انٹرا پارٹی الیکشن کی جانب بھی جانا ہے جو ایک طویل عرصے سے التوا کا شکار ہیں۔ 

سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان بطور صدر بی ائے پی الیکشن کمیشن سے بار بار انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد کے لئے مہلت مانگتے رہے ہیں ، گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے صحافیوں سے بات چیت میں جہاں اپوزیشن کیساتھ چوبیس نکاتی معاہدئے کو رد کیا وہاں جلد انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کا عندیہ بھی دیا اور کہا کہ ان کی رائے ہے کہ پارٹی قیادت اور وزیراعلیٰ کا عہدہ ایک شخص کے پاس نہیں رہنا چاہیے اس لیے میں پارٹی صدارت کا امیدوار نہیں ہوں۔

یاد رہے کہ سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان کا موقف ہے کہ وہ اب بھی پارٹی کے صدر ہیں جبکہ سنیئر صوبائی وزیر منصوبہ بندی و ترقیات میر ظہور احمد بلیدی جو اس وقت پارٹی کے قائم مقام صدر ہیں سمیت پارٹی کے دیگر رہنماوں کا موقف ہے کہ جام کمال خان وزرات اعلیٰ سے قبل پارٹی کی صدرات سے ٹوئٹر کے زریعے استعفا دئے چکے ہیں ، سیاسی حلقوں کی رائے ہے کہ پارٹی کے صدر کا معاملہ پارٹی کے انٹرا پارٹی انتخابات کے بعد ہی حل ہوگا اور دیکھنا ہے کہ بی ائے پی میں انٹرا پارٹی انتخابات کا معاملہ کب اور کیسے طے ہوتا ہے ۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید