سینیٹ میں سٹیٹ بنک کے ترمیمی بل پر ووٹنگ کے وقت یوسف رضا گیلانی کی عدم حاضری سے سیاست کے سمندر میں جوبھونچال برپا ہوا ہے ، اس کی لہروں کا مدوجزرابھی تک جاری ہے ،کیونکہ جس طرح شاہ محمودقریشی نے سینٹ کے فلور پر یوسف رضاگیلانی کی موجودگی میں انہیں آڑے ہاتھوں لیا اور سخت الفاظ میں ان پر تنقید کی ،اس کے اثرات ابھی تک سامنے آرہے ہیں، اگرچہ یوسف رضا گیلانی کی طرف سے ردعمل میں محتاط انداز اختیارکیا گیا ،تاہم ملتان کی ان دونوں بڑی سیاسی شخصیات میں اس سردوگرم جنگ کی وجہ سے ملتان کے سیاسی حلقوں میں یہ موزوں ابھی تک زیربحث ہے ،یہ درحقیقت ایک پرانی مخاصمت کی نئی شروعات ہے۔
ان دونوں کے درمیان سیاسی و انتخابی محاذ پر ماضی میں بھی جوڑ پڑتے رہے ہیں ،گیلانی اور قریشی خاندانوں کا ملتان کی سیاست میں ایک طویل پس منظر ہے ،دونوں میں اقتدار کے سنگھاسن پر پہنچنے کےلئے ایک دوڑ بھی جاری رہی ہے ،یہ اس دوڑ کا نتیجہ ہے کہ کبھی قریشی خاندان اقتدار میں ہوتا ہے ،تو کبھی یہ ہما گیلانی خاندان کے سر پر آبیٹھتا ہے ،لیکن اس بار شاید شاہ محمودقریشی کو پرانے بدلے چکانے کا موقع مل گیا اور یوسف رضا گیلانی کی عدم حاضری کی وجہ چاہے کچھ بھی رہی ہو ،لیکن اسے بنیاد بنا کر شاہ محمود قریشی نے جس طرح اپنا غبار نکا لا ہے ،اسے ملتان کے سیاسی حلقوں میں پسند نہیں کیاگیا ، اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ یوسف رضا گیلانی نے ان کی سخت اور تندوتیز تقریر کے باوجود جو مدبرانہ ردعمل ظاہر کیا ،اس کی وجہ سے شاہ محمود قریشی کو وہ نتائج نہ مل سکے ، جن کی شاید وہ توقع کررہے تھے۔
یہ ایک ایسی صورتحال ہے کہ جس نے کئی سوالات کو بھی جنم دیا ہے ، ابھی تک یہ نکتہ لانیحل ہے کہ شاہ محمودقریشی کو یوسف رضا گیلانی پر اس قدر شدید تنقید کرنے کی ضروت کیو ں پیش آئی ، حالانکہ یوسف رضا گیلانی کی غیر حاضری کے باعث حکومت سینٹ سے بل منظور کرانے میں کامیاب ہوئی ہے ، اصولاً تواس پر تنقید اپوزیشن کی طرف سے کی جانی چاہئے تھی ،مگراس کی بجائے شاہ محمودقریشی ایسے یوسف رضا گیلانی پرچڑھ دوڑے ،جیسے انہوں نے پی ٹی آئی کے خلاف ووٹ دیا ہو ،باخبر حلقے اس میں کچھ اور ہی پہلوتلاش کررہےہیں ،ان کے نزدیک یوسف رضا گیلانی کا یہ عمل سٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کی قربت کا پتا دیتاہے اور یہ بات شاید شاہ محمود قریشی کے لئے ایک ایسا خطرہ ہے ،جو وہ مستقبل کے سیاسی منظر نامے کےحوالے سے محسوس کررہے ہیں۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یوسف رضا گیلانی نے جب وزیراعظم کی حیثیت سے سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود آصف علی زرداری کے مبینہ کہنے پر سوئس حکومت کو خط نہیں لکھا تھا اور وزارت عظمیٰ گنوا بیٹھے تھے ،تو اب یہ کیسے ممکن ہے کہ انہوں نے سینٹ سے غیرحاضری کا فیصلہ ازخود کیا ہو ،اگریہ فیصلہ پارٹی قیادت خصوصاًآصف علی زرداری کے کہنے پر کیا گیا ،تو پھریقیناً اس کے پیچھے کو ئی بڑا سیاسی کھیل موجود ہے ، شاہ محمود قریشی کا اس قدر شدید ردعمل بے جانہیں ہے ، بعد کے حالات بتارہے ہیں کہ سیاسی فضا پر کچھ تبدیلیاں رونما ہونے جارہی ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری کا یوسف رضا گیلانی کا استعفیٰ منظور نہ کرنے کا فیصلہ اور اس کے بعد آصف زرداری کی بلاول بھٹو کے ہمراہ لاہور آمد اور اس کے ساتھ ہی شہبازشریف کی جانب سے بلاول بھٹو کو ملاقات کا فون ،آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کا ملاقات کے لئےان کی رہائش گاہ پر جانا ، یہ سب ایسے عوامل ہیں کہ جو ایک بڑے سیاسی گیم چینجر کی نشاندہی کررہے ہیں ،یوسف رضا گیلانی نے ایک بار پھر اپنے آپ کو ایک سیاسی وفادار ثابت کردیا ہے ،اس زمانے میں ان کی سیاسی وفاداری سٹیبلشمنٹ کے خلاف تھی۔
جب انہوں نے وزیراعظم کی حیثیت سے خط نہیں لکھا تھا اور اس بار ان کی سیاسی وفاداری سٹیبلشمنٹ کے حق میں رہی کہ انہوں نے عین وقت پر سینٹ میں ووٹ کاسٹ نہ کرکے حکومتی کے لئے آسانی پیدا کردی ،یہاں یہ امربھی قابل ذکر ہے کہ آصف زرداری اور شہبازشریف کی ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے کہ جب پیپلزپارٹی 27فروری کے لانگ مارچ کے لئے تیاریاں کررہی ہے اور اس سلسلہ میں آصف زرداری لاہور ،ملتان اور جنوبی پنجاب کے دورے پر بھی آنے والے ہیں ،کیاان ملاقاتون کے نتیجہ میں اس لانگ مارچ پر کوئی اثر پڑے گا ؟
کیا پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم کے لانگ مارچ میں کوئی ادغام ہوسکے گا ؟ کیا ان دونوں جماعتوں کے درمیان برف پگھلنے لگی ہے اور بلاول بھٹو ،مریم نواز کے درمیان جو سخت تقریروں کا تبادلہ ہوا تھا ،اس پر وقت کا مرہم رکھ دیا گیا ہے۔یہ پہلی بار ہوا ہے کہ آصف زرداری خود ان کی رہائش گاہ پر گئے ہیں ، اس سے پہلے شہبازشریف اور مریم نواز کراچی میں بلاول ہاؤس کا دورہ کرچکے ہیں ،یہ سارے عوامل ایک بڑی سیاسی تبدیلی کا پتا دے رہےہیں ، جس کی شروعات سینٹ میں سٹیٹ بنک کا ترمیمی بل منظور کرتے وقت ،اپوزیشن کی شکست اور اس میں پیپلزپارٹی کے کردار کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال سے ہوئیں ، سیاسی تجزیہ کار مارچ کے مہینہ کو ملکی سیاست کے لئے نہایت اہم قرار دے رہے ہیں۔
اس لئے یہ جو کچھ بھی ہورہا ہے ،اسے معمول کی کارروائی سمجھ کر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ادھر مولانا فضل الرحمن کے حکومتی اتحادیوں سے رابطے ،جن میں ایم کیوایم بھی شامل ہے اور مسلم لیگ ق کو یہ کہنا کہ انہوں نے پاکستان میں سیاست کرنی ہے ،تو حکومت سے علیحدہ ہونا پڑے گا ،حالات کے بدلتے تیوروں کو ظاہر کررہا ہے ، اس سلسلہ میں پیپلزپارٹی کے متحرک کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔