غلام مصطفیٰ
ایک آواز کی گونج مشرق سے مغرب تک سنی گئی،ذرا سوچیں کہ وہ آواز نہ تو صلا ح الدین ایوبی کی تھی ،اورنہ ہی محمد بن قاسم کی ۔ یہ اس بیٹی کے ہاتھ سے جڑے ہوئےایک زوردار تھپڑ کی آوازہے ،جس نے محمد بن قاسم اور صلا ح الدین ایوبی کو صرف ایک آواز دی تھی تو ان کی عزت نفس نے گوارا نہ کیا کہ کانوں میں روئی ٹھونس کر آرام کی زندگی کے مزے لوٹتے رہیں۔
آج وہی بیٹیاں پکارپکارکر بے بس ہو چکی ہیں ۔اور جان چکی ہیں کہ یہ معاشرہ صرف تماشائی ہے ۔جوصرف تماشاہی دیکھ سکتا ہے ۔ اس معاشرے میں نہ تو اتنی غیرت ہے اور نہ ہی اتنی شرم کہ اپنی بہن بیٹیوں کی عزت کا دفاع اپنی زبانوں کی بجائے اپنے ہاتھوں سے کرسکے ۔یہ آپاہچ معاشرہ ہے ۔اپنے جسم کا غلام معاشرہ ہے ۔اپنی ہی عیاشیوں کی زنجیروں سے باندھا ہوا معاشرہ ہے، جو صرف تماشے پر تالیاں اورواہ واہ ہی کرسکتا ہے ۔
کہتے ہیں کہ کورونا سےسونگھنے ،چھکنے کی حس ختم ہو جاتی ہے۔ہمارا خیال ہے کہ ہم کو روناکی بیماری سے بھی آگے جاچکے ہیں۔ ہم میں نہ غیرت ہے اورنہ دوسروں کی عزت و احترام کرنے کا جذبہ ، ہاں مگر یہ قوم کرسکتی ہے واویلا،خالی کھوکھلے نعرے لگا سکتی ہے ،پر غیرت نہیں ہے ،اگر ہے تو پھر یہ کیا اور کیوں ہو رہا ہے ، کرکٹ گرا ئونڈ میں تماشائیوں جیساپرفارم قوم کیوں کررہی ہے۔
اب تک تو شمشان گھاٹوں میں ہندئووں ،بنئوں کی لاشوں کے ڈھیر لگ جانے چاہیےتھے ۔ان کی چیتائوں کے لیے اس زمین سے درخت ختم ہو جانے چاہے تھے ۔ان کی میتوں کو آگ لگانے کے لیے بھی کوئی فرد زندہ نہ ہوتا ،مگر افسوس ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے ۔ہم سرے عام اپنی بیٹیوں کا تماشا اپنے اور پرائے چینلز پر رنگ برنگے لوگوں کے منہ سے اپنے ہی کانوں سے سن رہے ہیں اور اپنی ہی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ،مگر جو آنی چاہیے تھی غیرت وہ تو اب تک بھی نہیں آئی۔
شاید اب کبھی آسکتی بھی نہیں، کیوں کہ وہ رخصت ہوچکی ہے ۔اگر زندہ ہوتی تو فلسطین میںآج وہی بیٹیاں میدان جنگ میں نقاب کرکے مردوں کی جگہ یہودیوں سے جنگ لڑنے پر مجبور نہ ہوتیں ۔آج کشمیر اور ہندوستان میں بیٹیاں اپنی عزت کی جنگ تن تنہا نہ لڑ رہی ہوتیں، یہ ہی وہ سوال ہے ،جس کو ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے ۔سوچنے کا مقام ہے کہ اگر اپنے آپ کو غیرت مند کہتے ہیں تو وہ غیرت ہے کہاں ؟
واقعہ کچھ یوں ہے بھارتی ریاست کرناٹک میں مسلم خواتین کے لبا س اور پردے کے خلاف ہندوؤں کی نفرت آمیز اورانتہا پسندانہ مہم کئی ہفتوں سے جاری تھی ۔لیکن کوئی آواز بلند نہیں ہو رہی تھی ،ایسے میں ایک نہتی مسلم لڑکی آگے بڑھی اور اُس نے ’’نعرہ تکبیر ‘‘ بلند کرکے مسلم دنیا ہی کے نہیں غیر مسلموںکو بھی جھنجھوڑ دیا ہے، دنیا بھر میں مسلم طالبہ کی گونج ہے۔ انتہا پسندوں کے جتھے کے سامنے نعرۂ تکبیر بلند کرنے اور حوصلے سے ڈٹ جانے والی طالبہ نے اس مسئلے کو جس طرح عالمی سطح پر اچھا لا ،اسےدنیا کے لیے نظر انداز کرنا آسان نہیں۔
پی ای ایس کالج میں سیکنڈ ائیر کی طالبہ ،جس کا نام ’’مسکان ‘ ‘ہے ،اُس نے این ڈی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتےہوئے بتا یا کہ ’’میں اور میری ساتھی طالبات انتہا پسند ہندو غنڈو ں کی جانب سے ملنے والی دھمکیوں سے پریشان نہیں۔میں تو کالج میں اپنا اسائمنٹ جمع کرانے گئی تھی کہ غنڈوں کے ہجوم میں گھر گئی ،میں اُن سے بالکل خوفزدہ نہیں ہوئی، ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا ،میں کسی بھی قیمت پر اپنی شناخت اور دین سے جڑی روایات کو ترک نہیں کروں گی اور جحاب کی پابندی کرتے ہوئے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھوں گی۔تعلیم میری ہی نہیں سب مسلم طالبات کی ترجیح ہے۔
حکومت اور انتہا پسند ہندو تنظمیں ہماری تعلیم برباد کرنا چاہتی ہیں ۔ہم گھر سے باہر نکلتے ہوئے بر قعہ اورحجاب استعمال کرتے ہیں ۔حجا ب ہو یا بر قعہ ،یہ مسلم خواتین کی شخصیت کا حصہ ہیں ۔ ہمیں کمزور نہ سمجھا جائے ،ہم وہ کچھ کرسکتے ہیں ،جو ہندو برادری سوچ بھی نہیں سکتی ‘‘۔ ’’مسکان ‘‘نے جس طر ح آواز بلند کی ہے ،یہ صرف ایک لڑکی کی آواز نہیں ہے ،وہ ساری آوازیں ہیں جو اسلام کے نام پر جان دے دیں گی ۔