لاہور(نمائندہ جنگ، نیوز ایجنسیاں) اپوزیشن کی طرف سے وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کے اعلان کیے جانے کے بعد سیاسی رابطوں میں تیزی آ گئی ، مولانا فضل الرحمٰن نے چوہدری برادران سے ملاقات کی ہے۔
پی ڈی ایم کے حکومتی اتحادیوں سے رابطے شروع ہو گئے ہیں، پی ڈی ایم کے سربراہ نے چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ مسلم لیگ (ق) کے ایم این اے چوہدری سالک حسین اور جمعیت علمائے اسلام کے سینئر رہنما بھی شریک ہوئے۔
اس دوران مولانا فضل الرحمٰن نے چوہدری شجاعت حسین کی خیریت دریافت کی جبکہ چوہدری برادران کیساتھ ملاقات کے دوران ملکی سیاسی معاملات پر بھی بات چیت کی گئی۔
دوسری طرف قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور لیگی صدر شہباز شریف کی چوہدری برادران سے آج ملاقات کرینگے۔ جسکے امور فائنل کر لیے گئے ہیں، آج رات ملاقات کے شیڈول کو حتمی شکل دی جائیگی۔ ن لیگی صدر ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کی تیمارداری کیلئے آج انکی رہائش گاہ پہنچیں گے اور ملاقات میں سیاسی معاملات پر بات چیت کرینگے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کو یقین دہانی کراتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کیخلاف عدم اعتماد پر اپوزیشن کیساتھ ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن نے سابق صدر آصف علی زرداری سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔
ان کی خیریت دریافت کی اور جلد صحت یابی کیلئے دعا بھی کی۔ دونوں رہنماؤں میں سیاسی صورتحال پر بھی بات چیت ہوئی۔ جے یوآئی کے ذرائع کے مطابق آصف علی زرداری نے مولانا فضل الرحمٰن کو یقین دلایا کہ عدم اعتماد کے معاملے پر پوری اپوزیشن کے ساتھ ہیں۔
اس موقع پر مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کیلئے حکومت کے اتحادیوں سے بھی جلد رابطے کرینگے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہاہے کہ ہمیشہ اسناد اور شیلڈ کھیل کے اختتام پر دی جاتی ہیں۔ عمران خان کے اس انداز نے بتا دیا ہے کہ اب ان کا کھیل ختم ہو چکا ہے ،اس لیے پی ڈی ایم نے آنے والے کھیل کا عندیا دیدے دیا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کہتے ہیں ہماری ترقی کو دنیا نے تسلیم کیا تو پھر وزیر خزانہ کو سند کیوں نہیں نہ دی،حکومت ایک طرف دعوی کرتی ہے کہ ہم خارجہ محاذ پر کامیاب ہیں لیکن دوسری طرف انہوں نے شاہ محمود قریشی کو ایوارڈ نہ دے کر اپنے اس دعوی کی نفی کی اور ثابت کر دیا ہے کہ خارجہ محاذ پر کوئی پر فارمنس نہیں ہے۔
اگر دفاع مضبوط اور محفوظ ہاتھو ں میں ہے تو وزیر دفاع پرویز خٹک کو کیوں نہیں نوازا گیا؟ شعبہ اطلاعات کے میدان میں کارکردگی حکومت کی بہت اچھی تو اخلاقیات سے گرے ہوئے الفاظ کے چناؤ کر نے والے فواد چوہدری کو بھی کیوں نہیں ایوارڈ دیا گیا۔
حیرانگی اس بات پر ہے اگر داخلی محاذ پر حکومت اتنی کامیاب تھی تو وزیر داخلہ شیخ رشید کودسویں پوزیشن کیوں دی گئی ہے، انکی ترجیحات کسی کو سمجھ نہیں آتی یہ خود سمجھ سے عاری ہیں۔ انہوں نے ملک کے نظام کو کیسے چلانا ہے ؟ وہ جامعہ مدنیہ جدید رائے ونڈ روڈ پر علماءکونشن اور تکمیل بخاری کی تقریب سے خطاب کررہے تھے ۔
مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ ایک طرف حسن کارکردگی پر تمغے دیئے جارہے ہیں اور حالیہ منی بجٹ میں ٹیکسز کے انبار لگادیے گئے ہیں اور آج پھر پٹرول کی قیمتوں اضافہ کر کے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکا گیا ہے،حکومتی اس فیصلے سے ملک میں پھر مہنگائی اور بے روزگاری کی لہر میں اضافہ ہو گا۔
مہنگائی یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو پارلیمنٹ کے باہر فروخت کر نے لے آئے اور خودکشیاں کر نے پر مجبور ہوچکے ہیں،عام آدمی مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ آچکاہے اب وہ اپنی اولاد کو سمندر اور دریا برد کر نے پر مجبور ہو گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ کئی پڑوسی ملک ہم سے خوش نہیں، ایران کی خارجہ پالیسی کا بھی بھارت کی طرف جھکاؤ زیادہ ہے۔