بلوچستان میں حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کی وفاق و صوبے میں اپنی اتحادی جماعت پاکستان تحریک انصاف سے دوریاں بڑھتی جارہی ہیں ، بلوچستان کے مسائل بلوچستان میں ہی حل کرنے کے نعرے کے ساتھ2018کے انتخابات سے قبل قائم ہونے والی بلوچستان عوامی پارٹی نہ صرف بلوچستان اسمبلی کی بڑی پارلیمانی جماعت ہے بلکہ اس کی سینیٹ اور قومی اسمبلی میں بھی بھرپور نمائندگی ہے ، تاہم وفاقی کابینہ میں بی اے پی تو درکنار بلوچستان کی نمائندگی بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔
وفاق میں چاہے اعلیٰ سرکاری ملازمتیں ہوں ، کارپوریشنز کے سربراہ ہوں یا پھر بیرون ممالک سفیروں کی تقرری ہو ان سب میں بلوچستان ہمیشہ ہی نظرانداز رہا ہے وفاقی بیوروکریسی اور سفیروں کی تقرری سمیت دیگر معاملات میں بھی بلوچستان کو اس کی آبادی کے مطابق نمائندگی کبھی کبھار ہی ملتی ہے ، وفاقی کابینہ کی طرح وفاقی بیوروکریسی کے دروازے بھی بلوچستان کے افسران کے لیے بند ہی رہے ہیں، بلوچستان کی سیاسی جماعتیں ہمیشہ اس سلسلے میں وفاقی حکومتوں سے نالاں رہی ہیں، یہ الگ بات ہے کہ بلوچستان کی آواز وفاق میں کم ہی سنی جاتی رہی ہے۔
ماضی کے مقابلے میں اس مسئلے پر اب کی بار صورتحال کچھ یوں تبدیل ہوگئی ہے کہ ماضی میں اپوزیشن یا پھر ایوانوں سے باہر کی جماعتیں اس مسئلے پر احتجاج کرتی اور تحفظات کا اظہار کرتی چلی آئی ہیں لیکن اس بار بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹروں نے وفاق اور صوبے میں اپنی اتحادی جماعت اور وفاقی حکومت کے رویے کے خلاف احتجاج کیا ہے، سینیٹ آف پاکستان کے اجلاس میں بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان نے نہ صرف وفاقی حکومت کے رویے پر احتجاج کیا بلکہ ایوان سے واک آوٹ بھی کیا۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے ایک مرکزی رہنما سینیٹر پرنس آغا عمر احمد زئی نے موقف اختیار کیا ہے کہ وفاقی حکومت بلوچستان عوامی پارٹی کو گرے لسٹ سے نکالے ، وفاق میں ہمیں نمائندگی نہیں دی جارہی ہم بلوچستان میں حکومت میں ہیں لوگ ہم سے پوچھتے ہیں ستر سال میں نیشنل بینک کا ایک صدر بھی کیوں بلوچستان سے نہ آسکا ، انہوں نے واضح انداز میں کہا کہ اگر ہمیں وفاقی کابینہ میں نمائندگی نہ دی گئی تو آئندہ اجلاس میں نہیں آئینگے۔
اتحادی عملی مظاہرہ کریں نہ صرف بلکہ انہوں نے یہاں تک بھی کہہ دیا کہ پی ٹی آئی سنجیدگی کے ساتھ اتحادیوں کی نمائندگی تسلیم کرتی ہے تو ہم آگے چل سکیں گے بصورت دیگر ہمارئے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے ، دوسری جانب ماہ رواں کے اوائل میں بلوچستان عوامی پارٹی کے ایک اجلاس جس میں وزیراعلی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو ، چئیرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی ، اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر جان محمد جمالی سمیت پارٹی کے سینیٹروں ، صوبائی وزراء و ارکان قومی و صوبائی اسمبلی نے شرکت تھی میں بلوچستان عوامی پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے تعلقات کا جائزہ لیا اور وفاقی حکومت کی جانب سے پارٹی کو مسلسل نظر انداز کیے جانے پر ناراضی کا اظہار کیا گیا تھا کہ وفاق میں پی ٹی آئی کی سب سے بڑی اتحادی جماعت ہونے کے باوجود بی اے پی کو اسکا جائز مقام نہیں دیا جارہا جس پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا جبکہ اس امر پر افسوس کا اظہار کیا گیا تھا کہ وفاقی کابینہ میں نمائندگی نہ ہونے سے بلوچستان میں احساس محرومی میں اضافہ ہورہا ہے۔
بی اے پی وفاق میں پی ٹی آئی حکومت کی غیرمشروط حمایت کرکے تھک چکی ہے ، اسی اجلاس میں اتفاق رائے سے پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کا فیصلہ کیا گیا تھا کہ وزیراعلی عبدالقدوس بزنجو پارٹی کے تحفظات سے نہ صرف وزیراعظم کو آگاہ کریں گے بلکہ وزیراعظم کے سامنے بی اے پی کے تحفظات آخری مرتبہ کھل کر رکھے جائیں گے مطالبات پورے نہ ہونے اور تحفظات دور نہ کیے جانے کی صورت میں بی اے پی مستقبل کا لائحہ عمل طے کریگی، سیاسی حوالے سے اگر دیکھا جائے تو بی ائے پی کے وفاق میں برسراقتدار اپنی اتحادی جماعت سے تمام گلے شکوئے نہ صرف درست بلکہ جائز بھی ہیں لیکن یہ بات بھی اہمیت رکھتی ہے کہ بی ائے پی کی جانب سے ساڑھے تین سال کے بعد وفاقی حکومت سے رویہ اس قدر کیوں سخت ہوگیا ہے۔
اگر اس موقع پر بلوچستان یا بلوچستان عوامی پارٹی کو وفاقی کابینہ میں اس کے حق کے مطابق نمائندگی مل بھی جاتی ہے تو سوال یہ ہے کہ آئندہ ڈیڑہ سال سے کم دورانیہ میں وفاقی کابینہ میں شامل ہونے والے وزرا بلوچستان کے لیے کیا کچھ کرسکیں گے اور بلوچستان کا حق وفاق سے کس طرح حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے ، اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ وفاق میں چاہے حکومت کسی جماعت کی رہی ہو اس میں بلوچستان کو نہ تو پوری نمائندگی ملی ہے اور نہ ہی اس کی ترقی و خوشحالی کے لیے عملی اقدامات اٹھائے گئے ہیں بلکہ ہمیشہ صرف نعروں و اعلانات کی حد تک بلوچستان کی پسماندگی کے دعوئے کیے گئے ہیں جن کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
اگر کبھی وفاق سے فنڈز ملے بھی تو ان کے درست استعمال کو نہ تو صوبے میں یقینی بنایا گیا اور نہ ہی کسی وفاقی حکومت کی جانب سے دیئے گئے فنڈز کے استعمال پر کوئی چیک اینڈ بیلنس پر توجہ دی گئی ان تمام معاملات نے بلوچستان کی ترقی کی راہ روک رکھی ہے ،سیاسی حوالے سے اگر دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ وفاق میں اپوزیشن جماعتون کی جانب سے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر اتفاق رائے کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی نے ساڑھے تین سال میں وفاقی حکومت کی جانب سے نظرانداز کیے جانے پر اب وفاقی حکومت پر دباو بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے جہاں پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کے لیے بی ائے پی جیسی ایک بڑی اتحادی جماعت کو اس موقع پر نظر انداز کرنا شائد ممکن نہ ہوگا وہاں یہ خود بی ائے پی کے لیے بھی ایک اہم موڑ ہے اگر وہ اس موقع پر بھی اپنے موقف کو منوانے میں کامیاب نہی ہوتی ہے تو یہ اس کے لیے بھی ایک سوالیہ نشان ہوگا یہ مرحلہ ملک اور بلوچستان میں برسراقتدار دونوں اتحادی جماعتوں کے لیے ایک امتحان ہوسکتا ہے ۔