گزشتہ ہفتہ ملتان سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا ،چار بڑی سیاسی جماعتوں کی نمایاں شخصیات نے ملتان کا دورہ کیا ، پیپلزپارٹی کے بلاول بھٹو، مسلم لیگ ن کے حمزہ شہباز ،تحریک انصاف کے اسدعمر اور پی ڈی ایم کے قائد مولانا فضل الرحمن ملتان آئے ،بلاول بھٹو نے تو یہاں کئی دن گزارے ، ورکروں ،خواتین اور پیپلزپارٹی میں شامل ہونے والے لوگوں کی تقریبات میں شرکت کی ،جن میں کارکنوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی ،پیپلزپارٹی کی زیادہ تر تقریبات گیلانی ہاؤس میں ہوتی رہیں اور یوسف رضا گیلانی اپنے صاحب زادوں سمیت متحرک رہے ،بلاول بھٹو نے اپنے اس طویل دورے میں حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور یہ بھی کہا کہ اگرچہ پیپلزپارٹی پی ڈی ایم میں شامل نہیں ہے ،تاہم عدم اعتماد کی تحریک میں تمام اپوزیشن شامل ہے اور حکومت کو نکالنے کے لیے سب میں اتفاق پایا جاتا ہے۔
جب بلاول بھٹو ملتان میں اپنا سیاسی دورہ جاری رکھے ہوئے تھے ،تو اس دوران مسلم لیگ ن کے حمزہ شہباز بھی ملتان آگئے اور انہوں نے جلال پور پیروالہ میں ایک بڑے کسان کنونشن سے خطاب کیا ، کارکنوں سے ملاقاتیں کیں ، اس دوران وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کے نعرے لگتے رہے اورانہوں نے اپنی تقریر میں حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ،ان کا کہنا تھا کہ تمام ترسیاسی ہتھکنڈوں کے باوجود حکومت شہبازشریف کے خلاف کوئی کرپشن ثابت نہیں کرسکی ،صاف پانی کیس میں احتساب عدالت کا فیصلہ حکومت کے منہ پر ایک طمانچہ ہے ،جس سے ثابت ہوگیا ہے کہ جھوٹے مقدمات کے ذریعے اپوزیشن پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ منی لانڈرنگ کیس میں بھی ہم سرخرو ہوں گے ،جھوٹے کیسوں سے ہم گھبرانے والے نہیں ہیں ،ہمارا یہ نظریہ ہے کہ عوام کی خدمت کرتے ہوئے اگر ہمیں حکومت کی انتقامی کارروائیوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ،تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے ،قابل غور بات یہ ہے کہ بلاول بھٹو اور حمزہ شہباز کے اس بار کے دورے ان کے پچھلے دوروں کی نسبت زیادہ کامیاب ثابت ہوئےاور کارکن بھی چارج نظرآئے ،یادرہے کہ پچھلی بار بھی دونوں یکے بعد دیگرے ملتان آئے تھے اور دونوں کووہ سیاسی پذیرائی ملنے میں نہیں آئی تھی ،جو اس بار دیکھنے میں آئی ، شاید پیپلزپارٹی اپنے 27 فروری کے لانگ مارچ کا کامیاب بنانے کے لیے شدت سے محنت کررہی ہے۔
اس طرح مسلم لیگ ن کی رابطہ عوام مہم بھی کامیابی سے جاری ہے ،یہاں یہ امرقابل ذکر ہے کہ وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی نے بلاول بھٹو پر بلاول بھٹو کے دورہ ملتان پر بطور خاص سخت الفاظ میں تنقید کی ، ان کا کہناتھا کہ کل کا بچہ عوام کو بے وقوف بنا رہا ہے اور اسے جو پرچی لکھ کر دی جاتی ہے ،وہ آگے پڑھ دیتا ہے اور پرچی لکھنے والے اسے اپنے مقاصد کے لیے بے وقوف بنار ہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب صوبہ کے لیے بلاول بھٹو اور حمزہ شہباز دونوں کے دعوے اس لیے مضحکہ خیز ہیں کہ انہوں نے میرے اس خط کا جواب نہیں دیا ،جو میں نے جنوبی پنجاب صوبہ کے لیے مشترکہ جدوجہد کے حوالے سے انہیں لکھا ،جس میں یہ کہا گیا تھا کہ وہ جنوبی پنجاب صوبہ کی قرارداد پر ان کا ساتھ دیں ،اب انہیں دوبارہ یاددہانی کا خط بھیجا گیا ہے ،یہ دونوں جماعتیں جنوبی پنجاب صوبہ کے نام پر عوام کو بے وقوف بنانے کی بجائے اس خط کا جواب دیں اور اگر وہ واقعی ہی صوبہ کے لیے سنجیدہ ہیں، تو انہیں تحریک انصاف کی اس تجویز کو قبول کرلینا چاہئے۔
شاہ محمود قریشی کے حوالے سے ملتان میں یہ ہفتہ اس لیے بھی خاصا زیر بحث رہا کہ انہیں حکومت کی طرف سے کارکردگی ایوارڈ کا مستحق قرارنہیں دیا گیا، یاد رہے کہ ملتان کے لیے ان کی خدمات ویسے بھی نہ ہونے کے برابر ہیں، البتہ ان کے حامی یہ دعوی ٰ کرتے تھے کہ وزیرخارجہ کی حیثیت سے انہوں نے بہت زیادہ کامیابیاں حاصل کی ہیں اور عالمی سطح پر پاکستان کا بہتر امیج ابھاراہے ،اب جبکہ ان کی وزارت کو پہلے دس نمبروں پر آنے والی وزارتوں میں شامل ہی نہیں کیا گیا ،تو ان کے حامی مختلف تاویلوں کا سہارا لے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ شاہ محمود قریشی کا پارٹی میں موجود ایک خاص لابی نے اپنی مخالفت کا نشانہ بنایا ہے ،خود شاہ محمودقریشی نے اس بات کو کتنا سنجیدہ لیا ہے۔
اس کا اندازہ اس خط سے ہوتا ہے ،جو انہوں نے وزیراعظم کو لکھا ہے اور جس میں اس بات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا کہ وزارت خارجہ کی بہتر کارکردگی کے باوجود اسے پہلے دس نمبروں پر آنے والی وزارتوں میں نہیں رکھا گیا ،54 وزارتوں میں سے شاہ محمودقریشی واحد وزیر ہیں ،جنہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی ’’زیادتی ‘‘پر احتجاج کیا ہے ،جبکہ حکومت کے سب سے بڑے سپوکس مین فواد چوہدری نے اس فیصلہ کی تعریف کی ہے اور کہا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس نے کارکردگی جانچنے کا جو پیمانہ بنایا تھا ،اس پر جو وزراتیں پوری اتریں ، انہیں میرٹ کے لحاظ سے سرٹیفکیٹ دیئے گئے ہیں ، دیکھتے ہیں کہ شاہ محمود قریشی کی پارٹی میں سنی جاتی ہےیا وہ صرف اسی خط کی بنیاد پر اپنی ساکھ بحال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ادھر تحریک انصاف کی نئی تنظیم سازی پر تحریک انصاف کے دیرینہ کارکنوں میں شدید غم وغصہ و اضطراب پایا جاتا ہے ،ان کا کہنا ہے کہ جو ایڈوائزری کونسل بنائی گئی تھی ،اس کا مقصد پارٹی کے اہل اور مخلص رہنماؤں کو عہدوں کے لیے تجویزکرناتھا ، جبکہ اس کے برعکس ایڈوائزری کونسل کے اراکین نے تمام عہدے اپنے آپ میں بانٹ لیے اور ان میں سے ہرایک عہدے دار بنا بیٹھا ہے ،اسی طرح جنوبی پنجاب کی ایڈوائزری کونسل کے سارے اراکین بھی عہدے دار بن گئے ہیں ،جس کی وجہ سے جنوبی پنجاب کے پارٹی حلقوں میں بددلی اور مایوسی پائی جاتی ہے اور انہوں نے چئیرمین تحریک انصاف عمران خان سے اس بندربانٹ کا نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔