• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

حکومت، اپوزیشن کی پنجہ آزمائی: فیصلہ کُن مراحل میں

پی ٹی آ ئی کی حکومت اور متحدہ اپوزیشن کے درمیان پنجہ آ زمائی فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہوگئی ہے۔ منقسم اپوزیشن جماعتیں با لآخر وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے ون پوائنٹ  ایجنڈے پر متحد اور یکسو ہوگئی ہیں۔ فیصلہ کن معرکہ لڑنے کیلئےحکومت اور اپوزیشن کی صف بندی جاری ہے۔ حکومت کو یقین ہے کہ اتحادی جماعتیں عمران خان کے ساتھ کھڑی ہیں اور حکمران جماعت کے ممبران اسمبلی کو بھی وزیر اعظم پر مکمل ا عتماد ہے۔ 

دوسری جانب متحدہ اپوزیشن تحریک کی کا میابی کیلئے پر اعتماد ہے۔ اپوزیشن لیڈر نہ صرف حکومت کی اتحادی جماعتوں کو توڑنے کی کوششیں کر رہے ہیں بلکہ جہانگیر ترین گروپ اور دیگر ناراض حکومتی ممبران سے بھی رابطے میں ہیں۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نےجس متحرک انداز میں پیپلز پارٹی ‘ جے یو آئی ‘ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق سے رابطے کئے ہیں اس کے نتیجے میں بہر حال عدم اعتماد کی تحریک کیلئے ایک سنجیدہ ما حول ضرور بن گیا ہے۔ وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اب کسی بھی وقت پیش کی جاسکتی ہے۔ اس تحریک کی کا میابی کا انحصار کئی عوامل پر ہے۔

سیا سی عوامل میں سر فہرست یہ کہ کیا پی ٹی آئی کی اتحادی جماعتیں آخری وقت تک عمران خان کے ساتھ کھڑی رہیں گی یا نہیں۔ دوسر ا یہ کہ جہانگیر ترین گروپ سمیت پی ٹی آئی کے اندر سے اسے بغاوت کا دھچکہ لگ سکتا ہے یا نہیں۔ تیسرا عنصر غیر سیاسی ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ حکومت کو بچانے میں اپنا کردار ادا کرے گی یا غیر جانبدار رہے گی یا اپوزیشن کو سپورٹ کرے گی۔ 

تحریک عدم اعتماد کا میاب ہو یاناکام بہر حال اس کو پیش کرنے کے اعلان سے ہی وفاقی دارالحکومت افواہوں اور چہ مہ گوئیوں کی زد میں آ گیا ہے۔ سیا سی اور سفارتی حلقوں کی نظر یں تحریک عدم اعتماد کے نتائج اور حکومت کے مستقبل پر لگی ہیں۔ حکو متی وزراء بے شک دعوے کریں کہ اتحادی ان کے ساتھ ہیں لیکن بہر حال اتحادی جماعتوں کی اپو زیشن لیڈر شہباز شریف سے ملاقاتیں بذات خود اتحادی جماعتوں کی کامل وفاداری پر سوالیہ نشان ہے۔

تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کا معاملہ مسلم لیگ ن کی اندرونی دھڑے بندی کا خاتمہ کے بعد واضح ہوا۔ ن لیگ میں دو واضح دھڑے تھے۔ نواز شریف اور مریم نواز سڑکوں پر احتجاج کی سیاست کے حامی تھے جبکہ مفاہمت پسند شہباز شریف پار لیمینٹ  کے اندر آئینی طریقے سے ان ہائوس تبدیلی چاہتے تھے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر پیپلز پارٹی اور اے این پی پی ڈی ایم سے الگ ہوئے تھے۔ 

دونوں جماعتیں استعفے دینے کی بجائے عدم اعتماد کے آپشن کے حامی تھے۔ یہ تو ماننا ہوگا کہ پیپلز پارٹی کی سوچ سیاسی تھی جسے وقت نے درست ثابت کر دیا ۔ نواز شریف نے بالاآخر شہبا زشریف کو پارٹی کی ڈرائیونگ سیٹ دے کر انہیں عدم اعتماد کے آپشن کیلئے گوہیڈ دیدیا جس کے بعد شہبازشریف نے آصف زرداری اور بلال بھٹو سے رابطہ کیا۔ 

اس کے بعد ایم کیو ایم کے وفد سے ملاقات کی۔ مولانا فضل الرحمن کو گھر بلایا اور پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے عدم اعتماد کا فیصلہ کر الیا۔سب سے اہم بات یہ کہ چوہدری برادران کو گلے لگالیا اور 14سال کے بعد ان کے گھر چلے گئے۔ اب جہانگیر ترین سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز سے رابطے کئے جا رہے ہیں۔ عمران خان شہباز شریف کو خطرہ سمجھتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ شہباز شریف اپنے مفاہمانہ طرزِعمل کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کیلئے قابل قبول ہیں۔

وزیر اعظم نے اس موقع پر جبکہ اپوزیشن عدم اعتماد کی تحریک کیلئے سرگرم عمل ہے اپنے وزراء کو ایوارڈ بانٹ کر کابینہ کو تقسیم کردیا۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی بر ائے اسٹیبلشمنٹ شہزاد ارباب ریٹائرڈ بیورو کریٹ اور غیر سیاسی شخصیت ہیں ۔ وہ سیا سی نزاکتوں سے لا علم ہیں انہوں نے ٹاپ ٹین وزراء کو وزیر اعظم سے ایوارڈ دلوا کر باقی وزراء کو ناراض کرا دیا۔ 

اس ایوارڈ کی تقریب نے حکومتی صفوں میں ماحول کو نا خوشگوار بنادیا اور غیر ضرروی طور پر ایک نیا پنڈورہ باکس کھول دیاگیا۔ بہرحال یہ تو طے ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو اپنے سیاسی کیر یئر کے سب سے مشکل امتحان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وہ اگر اس امتحان میں سرخرو ہوگئے تو سیاسی طور پر پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جائیں گے۔ 

سینیٹر فیصل واوڈا کے نااہل ہونے سے بھی عمران خان کو دھچکہ لگا ہے۔ پہلے فیصل واوڈا نے قومی اسمبلی کی نشست ضائع کرائی اب سینیٹ کی نشست بھی ان کی وجہ سے ہاتھ سے چلی جا ئے گی اور پیپلز پارٹی کو سینیٹ میں ایک نشست اور مل جا ئے گی۔ اپوزیشن کے پاس عمران خان کو شکست دینے کا یہ آخری موقع ہے اگر اس میں وہ ناکام ہوئی تو پھر عمران خان پانچ سال پورے کریں گے۔عدم اعتماد کی تحریک کی کا میابی کوئی آ سان کام نہیں ہے کیونکہ حکومت کے پاس تحریک کو ناکام کرانے کیلئے وسائل ہوتے ہیں۔

ممبران کو لالچ بھی دیا جا سکتا ہے اور دھمکایا بھی جا سکتا ہے۔ یہ تو طے ہے کہ آصف علی زرداری ‘ شہباز شریف اور مو لا نا فضل الر حمن عمران خان کی نسبت زیادہ منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور سیا سی گر جانتے ہیں۔ اسٹریٹجک سوال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا وزن کس پلڑے میں ہوگا۔ 

ذرائع کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس سیاسی کھیل سے دور رہے گی ۔ وہ نہ حکومت کو بچانے کیلئے فون کال کرے گی نہ ہی اپوزیشن کی حمایت کرے گی۔ اسٹیبلشمنٹ  غیر جانبدار رہے گی ۔ اپوزیشن بھی صرف یہ چاہتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار رہے۔

ان کا خیال ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار رہے تو ہم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو کامیابی سے ہمکنا ر کرسکتے ہیں۔ ابھی تک اپوزیشن جماعتیں تحریک عدم اعتماد کیلئے مہم جوئی میں مصروف ہیں لیکن سوال صرف یہ نہیں کہ عدم اعتماد کر لیا جا ئے سوال یہ بھی ہے کہ تحر یک کی کا میابی کی صورت میں اگلا وزیر اعظم کون ہو گا۔ 

سوال یہ بھی ہے کہ اگلا سیٹ اپ کتنی مدت کیلئے ہوگا اور اگلے الیکشن کب ہوں گے۔ موسم سر ما کا زور ٹوٹ رہا ہے۔ موسم بہار کی آ مد آ مد ہے اور موسم کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ سیا سی موسم بھی تبدیلی کیلئے کروٹ لے رہا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کا نتیجہ کچھ بھی نکلے اس کے سیا سی اثرات و مضمرات دور رس مرتب ہوں گے۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید