تعلیم ایک مکمل با ضابطہ تدریس کا عمل ہے، جس میں استاد اپنے شاگردوں کو کتابوں کی روشنی میں درس دیتا ہے، جبکہ علم کا مطلب ہے جاننا، جو کسی مدرسے یا اسکول کا محتاج نہیں۔ یہ تو ہر جگہ سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انسان اپنے آپ سے بھی سیکھ سکتا ہے۔ یہ کسی کی میراث بھی نہیں، بلکہ وہ شعوری کاوش ہے، جس کی بدولت شخصیت کے ساتھ خاندان، معاشرے اور وطن میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔
عِلم وہ پیالہ ہے کہ جس میں جتنی پیاس ہوگی وہ جی بھر کر پی لے گا مگر پیاس پھر سے پہلے سے بھی زیادہ ہوجائے گی۔ پاکستان کے قیام کے بعد نوجوان تعلیم کے ساتھ علم کے رموز سے بھی آشنا تھے، یہی وجہ تھی کہ قائد اعظم اور لیاقت علی خان کی زیر نگرانی ترقی کی طرف اپنی راہیں ہموار کرنی شروع کی تھیں کیونکہ وہ اس حقیقت کو جانتے تھے کہ علم کے بغیر تعلیم نامکمل ہے لیکن گزشتہ تین دہائیوں سے نوجوانوں نے حصول ِ تعلیم کا جو طریقہ اختیارکیا ہے یا جس طریقے سے اُنہیں تعلیم دی جارہی ہے وہ علمی صلاحیتوں سے محروم ہے، وہ صرف تعلیم تک ہی محدود ہو کر رہ گئے ہیں ، جبکہ علم اور تعلیم کا مفہوم اور شناخت الگ ہیں لیکن ایک دوسرے میں نگینے کی طرح جڑے ہوئے ہیں۔
نوجوان نسل جو مکمل کر چکے ہیں یا جو زیر تعلیم ہیں ،ان میں13فیصد پاکستانی طالب علم تعلیم اور علم کی افادیت کو سمجھتے ہیں اور اس میں توازن برقرار رکھنے میں کامیاب ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تدریسی تعلیم کے ساتھ ساتھ مطالعہ کو بھی اہمیت دیتے ہیں ان کے نزدیک مطالعہ سے مراد مختلف موضوعات کی کتب بینی، جن میں اخبارات، رسائل و جرائد کے مواد کے علاوہ مشاہدات غور وفکر سے اپنی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرتے ہیں اپنے اندر جستجو کا ایک سمندر رواں رکھتے ہیں۔
موجودہ دور میں الیکٹرونک میڈیا کے ذریعہ مزید اپنی تحقیق جاری رکھتے ہیں۔ ماضی، حال اور مستقبل کے دنیا بھر کے تعلیمی نظام اور کیفیات کے بارے میں مختلف نظریات کا وسیع مطالعہ کرنے کے بعد اپنا ایک نظریہ قائم کرتے ہیں یہی ’’علم ‘‘ کی پہلی سیڑھی ہے،کیونکہ علم کے معنی ہی جاننےکے ہیں۔
87فیصد نوجوان طبقہ اور طالب علم صرف تعلیم کو ہی حقیقی علم کا درجہ دیتے ہیں اور اس کے حصول کے لئے مختلف نوعیت کے طریقے آزماتے ہیں جن میں نقل، پرچہ آئوٹ، رشوت ،تعلقات، سفارش وغیرہ ہیں، تاکہ امتحانات میں مطلوبہ نتائج حاصل کر سکیں، وہ اپنے کورس کی کتابوں کے مضامین کی تعداد، عنوانات تک سے لاعلم ہوتے ہیں۔ علم حاصل کرنا انفرادی ذمہ داری ہوتی ہے۔
ہمارے سامنے ایسی ہزاروں مثالیں اور لوگ ہیں جو تعلیم کے ذرائع میسر نہ ہونے کے باوجود دنیا میں کامیاب ہوئے، دوسری طرف ایسے لاکھوں لوگ بھی ہیں جو تعلیم کے تمام ذرائع میسر ہونے کے باوجود بھی تعلیم حاصل کرنے کی اہمیت اس سے زیادہ نہ سمجھ پاتے کہ یہ زندگی میں روٹی کمانے کا ذریعہ ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تعلیم کے ساتھ نئی نسل کو علم کی شناخت کیسے ہو؟ ماہرین کے مطابق مشاہدات، تجربات کے ساتھ اپنے اندر علم کی کمی کو تلاش کریں اور ماضی سے کچھ سیکھیں گے تب ہی اُن میں علمی تحریک پیدا ہوگی۔
آج کی مادی دنیا میں اگر کوئی چیز مفت ہے تو وہ علم ہے۔آپ تعلیم حاصل نہ بھی کر سکیں لیکن علم حاصل کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا، جن کو اس کا شوق نہیں یا علم اور تعلیم کے فرق کا پتہ نہیں وہ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود جاہل ہی رہتے ہیں۔ ستر سے اسی سال پہلے تک بغیر اخلاقیات اور آداب کے تعلیم کو تعلیم نہیں سمجھا جاتا تھا۔اور اچھے کردار اور آداب کے ساتھ نہ صرف اپنی انفرادی بلکہ اجتماعی زندگی کو حق کی بنیاد پر گزارنا یعنی کہ صحیح فیصلے کرنے کی صلاحیت’ ہمت’ حوصلہ اور مہارت حاصل کرنے کا نام ہی تعلیم تھا۔ لیکن بدقسمتی سے آج کل کی تعلیم تو صرف ہر حالت اور ہر قیمت پر مال و زر اکٹھا کرنے کے فن کا نام رہ گئی ہے۔
آج کل کے دور میں جہاں تعلیم کا مقصد کمانا بن چکا ہے اور اسےحاصل کرنا اس مقصد تک پہنچنے کی ایک سیڑھی۔جب مقصد ہی بدل گیا’ سوچیں ہی بدل گئیں اور تعلیم کمائی کا ذریعہ بن گئی تو پھر حاصل کرنے کی قیمت لینے میں بھی کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔
تاریخ پر نظر دوڑائیں تو عظیم مشہور و معروف ہستیوں نے اپنے محدود وسائل کے باوجود تعلیم بھی حاصل کی اور علم بھی سیکھا اور تحقیق و تجربات کی صورت میں نت نئے قوانین ،فارمولے، اصلاحات دنیا کے سامنے پیش کیں، انہوں نے اپنے بزرگوں ،اساتذہ اور عالموں کی صحبت میں بیٹھ کر علم حاصل کیا اورتعلیم سے اسے کندن بنایا۔
کئی صدیوں پہلے یہ کتابیں اور نادر نسخے اندلس ،مراکش اورمصر کی لائبریریوں تک پہنچائے گئے، جس سے تعلیم و تدریس کے شعبے کو تقویت ملی اورمترجم حضرات نے اپنی اپنی زبانوں میں ترجمے کر کے انہیں زندگی کے مختلف شعبہ ہائے زندگی کا جامع حصہ بنا دیا یہ علوم آج بھی دنیا کی تمام اسلامی اور غیر اسلامی تدریس کا بیش بہا سرمایہ ہیں۔ اگر نوجوان کامیابی چاہتے ہیںتوغور کریں گردونواح پر،معاشرے کی تبدیلیوں پر، اپنے کھانے پینے پر، اور سوچیں کہ زندگی کا مقصدکیا ہے؟ یاد رکھیں علم ایک خزانہ ہے جس کی کنجی آج ہی سے اپنے ہاتھ میں لے لیں۔