• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے بابا کو کیوں مارا ؟ ان کا قصور کیا تھا؟ اب ہمیں اسکول کون لے کرجائے گا؟۔ یہ سوال ان معصوم بچیوں کے تھے، جن کے والد اور سماء ٹی وی کے سینئر پروڈیوسر اطہر متین کو جمعےکی صبح نارتھ ناظم آباد فائیوا سٹار چورنگی کے قریب بے لگام اسٹریٹ کرمنلز نے کار پر فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ۔ 

تفصیلات کے مطابق مقتول 42 سالہ اطہر متین اپنی کار میں اپنی بیٹیوں کو اسکول چھوڑ کر واپس گھر جا رہے تھے کہ مسلح موٹرسائیکل سوار ڈاکو شہریوں سے لوٹ مار کررہے تھے کہ مقتول اطہر متین نے دلیری او انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈاکوؤں کو للکارا اور پھر وہ ڈاکوؤں کی گولی کا نشانہ بنے، انہوں نے اپنی کار سے ڈاکوؤں کی موٹر سائیکل کو ٹکر مار کر انھیں گرادیا، اسی دوران ایک ڈاکو نے اٹھتے ہی نشانہ لے کر کا ر پر فائرنگ کردی۔

جس کے نتیجے میں کولی ونڈاسکرین کو توڑتے ہوئے سیدھی اطہر متین کے سینے میں جا لگی اور وہ جاں بحق ہوگئے۔ اطلاع ملنے پر پولیس اور ریسکیو ادارے کے رضاکار موقع پر پہنچے اور اطہر متین کی لاش کو اسپتال منتقل کیا۔ واقعے کی اطلاع پر صحافیوں کی بڑی تعداد بھی اسپتال پہنچ گئی ، جب کہ سینئر پولیس افسران بھی جائے وقوعہ پر پہنچ گئے۔ پولیس نے کرائم سین سے گولیوں کے خول تحویل میں لے لیے ہیں۔

ملزمان واردات کے بعد قریب ہی موجود شہری سے موٹرسائیکل چھین کر فرار ہوگئے، اپنی موٹر سائیکل جائے وقوعہ پر ہی چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ ڈی آئی جی ویسٹ ناصر آفتاب نے کہا کہ کاونٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ اور سی آئی اے کی ٹیمیں واقعہ پر کام کررہی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ اس واقعہ میں پولیس کو ٹارگٹ کلنگ کے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں۔ 

مقتول صحافی اطہر متین نارتھ ناظم آباد شپ اونرز کالج کے قریب رہائش پذیر تھے۔ وہ اپنے یوٹیوب پر ”کراچی ڈائری“ کے نام سے وی لاگ میں جرائم کے کے حوالے سے سلگتے موضوعات پر اہم اور سنجیدہ سوالات اٹھاتے تھے۔ مقتول نے بیوہ اور 2بیٹیوں سمیت سیکڑوں افراد کو سوگوار چھوڑا ہے۔ مقتول کے بڑے بھائی اور صحافی طارق متین نے کہا کہ حکومت سندھ اور کراچی پولیس اس تمام واقعہ کی ذمے دار ہے۔ 

طارق متین سمیت صحافی تنظیموں نے اطہر متین کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے 72 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا کہ اگر اطہر متین احمد کے قاتلوں کو گرفتار نہ کیا گیا، تو صحافی ہر سطح پر احتجاج پر مجبور ہوں گے ، اسٹریٹ کرائمزاور ڈکیتی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں میں صحافی بھی بڑی تعداد میں نشانہ بن رہے اور آئے روز صحافی اپنے موبائل اور کیمرے سمیت دیگر پروفیشنل آلات سے محروم ہو جاتے ہیں۔ پولیس خودساختہ کارکردگی دکھانے کے لیے یومیہ بنیاد پر مبینہ مقابلوں کے دوران درجنوں ملزمان کو زخمی حالت میں گرفتار کرنے کے دعوئے کرتی ہے، لیکن وارداتیں کم نہیں ہو رہی ہیں۔ 

آئی جی سندھ مشتاق مہر صوبے میں امن قائم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہیں، جنہیں فوری طور پر عہدے سے بر طرف کرنا ضروری ہے۔ صوبائی وزیر سعید غنی نے مقتول صحافی اطہر متین کی رہائش گاہ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں یقین دلاتا ہوں کہ قاتلوں کو ضرور پکڑیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اطہر متین کے بچوں کے تعلیمی اخراجات صوبائی حکومت برداشت کرے گی۔ شہر قائد بہت بڑا ہے اور پولیس کی نفری بھی بڑھائی جائے گی، ایڈیشنل آئی جی کی تبدیلی بھی جرائم کی روک تھام کے لیے کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کو نکالیں گے، کوشش کررہے ہیں کہ اسٹریٹ کرائمز کے حوالے سے بہتر حکمت عملی بنائی جائے گی۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن نے صحافی اطہر متین کے قتل کی تحقیقات کے لیے ڈی آئی جی ویسٹ کی سربراہی میں ٹیم تشکیل دے دی ہے۔ ایس ایس پی اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ اور ایس ایس پی سینٹرل تحقیقاتی ٹیم کا حصہ ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ فائرنگ کے واقعہ میں ملوث ملزمان کو جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔ 

میڈیا کا کردار بلاشبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، پولیس اور میڈیا کو مل کر کام کرنا ہوگا، کراچی پولیس میں تھانے کی سطح پر نفری میں اضافےکے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، تھانوں میں عملے کی تربیت اور ایس ایچ اوز کی کارکردگی کی جانچ کا عمل شروع کر دیا گیا ہے،کارکردگی نہ دکھانے والے تھانے داروں کو عہدے سے ہٹا دیا جائے گا۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی کا کہنا ہے کہ اطہر متعین کے قاتلوں سے متعلق ہمارے پاس کچھ مواد ہے، جلد ان تک پہنچ جائیں گے، اسٹریٹ کرائمز کے حوالے سے ہماری پالیسی واضح ہے۔

4 روز گزر نے کے بعد صحافی اطہر متین کے قاتلوں کی عدم گرفتاری کے خلاف صحافی سرا پا احتجاج ہیں۔ منگل کو صحافتی تنظیموں کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سےکراچی پولیس آفس کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا گیا، جس میں سیاسی، سماجی رہنماوں سمیت صحافیوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی ، جب کہ احتجاج میں کراچی پولیس چیٖف غلام نبی میمن نے بھی دھرنے میں شرکت کر کے قاتلوں کی گرفتارکی یقین دہا نی کراتے ہوئے کہا کہ میڈیا کا کردار بلاشبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، پولیس اور میڈیا کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ 

بعد ازاں منگل کی شب ہی پولیس کی جانب سے مقتول صحافی اطہر متین کے مرکزی قاتل سمیت 3ملزمان کو بلوچستان کے ضلع خصدار سے گرفتار کر نے کا دعویٰ سامنے آگیا ، پولیس کے مطابق خواتین کے کپٹروں اور برقعے میں ملبوس قتل کے مرکزی قاتل عابد امین سمیت 3 ملزمان کوگرفتار کر کے کراچی منتقل کردیا گیا ہے ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ واردات میں استعمال ہونے والی موٹر سائیکل جوملزمان جائے وقوعہ پر چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے اس کی مدد سے گرفتاری ممکن ہوئی ہے۔

دوسری جانب معاشی حب بے اماں، کراچی کے شہری رواں برس کے آغاز سے تاحال ڈاکوؤں اور اسٹریٹ کرمنلز کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ بے لگام جرائم پیشہ افراد جب اور جہاں چاہیں معصوم اور بے قصور عوام کو نہ صرف قیمتی اشیا سے محروم کر رہے ہیں ، بلکہ ذرا سی مزاحمت پر جان بھی لینے سے دریغ بھی نہیں کرتے۔ کراچی پولیس ان ظالموں کے سامنے بے بس اور لاچار نظر آتی ہے ۔ 

ڈاکو رواں سال کے صرف ڈیڑھ ماہ کے دوران اب تک مزاحمت کے نتیجے میں صحافی سمیت 16سےزائد افراد ڈاکوؤں کی گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں، جب کہ90سے زائد شہری زخمی ہو کر بے بسی،معذروی اور خوف کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ اسٹریٹ کرائمزکی وارداتوں کی تعداد ہزاروں سے بھی تجاوز کرگئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک ڈیڑھ ماہ کے دوران شہریوں کو اسلحےکے زور پر تقریبا1000 سے زائد موبائل فونز۔ 800 موٹر سائیکل اور 20 گاڑیوں سے محروم کر دیا گیا۔

شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ پولیس کی سرپرستی کے بغیر جرائم کا پھیلاؤ ممکن نہیں۔ پولیس گرفتار کیے جانے والے جرائم پیشہ افراد کے مقدمات انتہائی کمزور صورت میں عدالتوں میں پیش کرتی ہے ، تاکہ وہ آزاد ہو سکیں اور اس عیوض بھاری رقمیں وصول کر تے ہیں اور یہی وجہ ہےکہ جرائم پیشہ افراد رہائی کے بعد دوبارہ بلا خوف و خطر وارداتوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ شہریوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کراچی کے عوام سب سے زیادہ ٹیکس ادا کر نے کےباوجو د ڈاکوؤں کے ہاتھوں جان و مال سے بھی محروم کیے جارہے ہیں۔

شہریوں نے اچانک بڑھتی ہوئی اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں اور پولیس کی مجرمانہ خاموشی پر کئی سوال اٹھا دیے ہیں؟ شہریوں کا کہنا ہے کہ عوام تحفظ کے لیے کے بنائی گئی اسپیشل سیکیورٹی یونٹ (ا یس ایس یو) پولیس کی ذمے داریاں کیا ہیں ؟ کیا اس کی ذمے داری صرف بلاول ہاؤس اور زرداری ہاؤس کو سیکیورٹی فراہم کرنا ہے ؟ کیا اس کی وزیر اعلیٰ ہاؤس، وزیروں اور مشیروں کی سیکورٹی ہے؟ 

سندھ پولیس کی آدھی سے زیادہ نفری وزیروں، مشیروں کے گھروں اور ان کی حفاظت پر ہی مامور ہے ۔ آج پورے ملک میں سب سے زیادہ عدم تحفظ کا شکار کراچی کے شہری ہی نظر آرہے ہیں۔ کراچی کے عوام کو اب اس اہم مسلئے پر سنجیدگی سے سوچناہو گا۔ شہری تاحال ڈاکوؤں کے رحم وکرم  پر ہیں، جب کہ بے پروا آئی جی سندھ مشتاق مہر صحافی اطہر متین کے اہل خانہ کےزخم پر مرہم رکھنے تو نہیں گئے ،لیکن چھٹی کے رو ز آرٹ کی نمائش میں شرکت کے لیے فرئیر ہال پہنچ گے۔

اس موقع پر میڈیا نمائندوں کوشہر میں بڑھتے ہوئے جرائم اور نہ رکنے والے اسٹریٹ کرائمز پرموقف دینےسے بھی انکار کر دیا۔ان کا کہنا ہے کہ لوٹ مارکی وارداتوں پرکچھ نہیں کہہ سکتا۔ عدالتوں میں پیشی کے دوران میڈیا کے سوالات پرروایتی طور پرخاموش رہنے والے آئی جی سندھ نے اس موقع پر بھی چپ کا روزہ نہ توڑا ۔ پینٹنگز کی نمائش میں آئی جی سندھ کا موقف دینے سے گریز بے لگام اسٹریٹ کرمنلز کے ہاتھوں قتل وغارت گری پر آئی جی سندھ کی پراسرار خاموشی نے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ سابق کراچی پولیس چیف عمران یعقوب منہاس کو شہر میں تواتر سےہو نے والی اسٹریٹ کرائمز ،ڈکیتی اور قتل و غارت گری کی روک تھام میں ناکامی پر عہدے سے بر طرف کرکے غلام نبی میمن کو دوباہ کراچی پولیس چیف تعینا ت کیا گیا ، لیکن بے لگام ڈاکووں اور اسٹریٹ کرمنلزنے نہ صرف اپنا راج قائم رکھا، بلکہ حکومت سندھ اور پولیس چیف کی رٹ کو چیلنج کرتے ہوئے ایک صحافی کو بے دردی قتل کرکے لاش کا تحفہ دے کر یکدم وارداتو ں میں تیزی لا دکھائی اور مذ کورہ واردات والے روز ہی جمعے کی شب گلشن اقبال بلاک 16 میں مسلح ڈاکوؤں نےبیکری میں داخل ہوکر لوٹ مار کی تو سیکیورٹی گارڈ نےملزمان کو پکڑنےکی کوشش اور مزاحمت کی تو ڈاکوؤں نے اس پرفائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں 60سالہ سیکیورٹی گارڈ سیف اللہ ولد امیر بخش جاں بحق ہو گیا۔ 

ڈاکو مقتول سیکیورٹی گارڈکااسلحہ بھی چھین کرفرارگئے ۔ اسی روز ٹیپو سلطان تھانے کے سامنے کراچی ایڈمن سوسائٹی کی گلیوں میں مسلح ڈاکوؤں کی جمعے کی نمازکے وقت 10منٹ تک لوٹ مار کی واردات کے دوران 9 شہریوں کو اسلحے کی نوک پر لوٹ لیا اور بآسانی فرار ہو گئے ،پولیس نے متاثرین کا مقدمہ تک درج نہیں کیا۔ 

ادھر ضلع وسطی میں جاری ڈاکو راج کے دوران جمعے کو مسلح ڈاکووں نے نیو کراچی صنعتی ايريا پلاٹ نمبر 270کےکارخانے میں دھاوا بول کر اسلحے کے زور پر 9افراد سے 2لاکھ روپے نقد،9 قیمتی موبائل فونز لوٹے اور بآسانی فرار بھی ہوگئے واردات کا مقدمہ درج کرانے کے باوجود پولیس ملزمان کو تاحال گرفتار نہیں کر سکی ہے۔

جمعے کولیاقت آباد نمبر 10الکرم اسکوائر کے قریب بریانی ہاؤس میں 6مسلح ملزمان نے دھڑلے کے ساتھ لوٹ مار کی، جس کی سی سی ٹی وی ویڈیو بھی منظر عام پر آگئی ،جس میں واضح دیکھا جا سکتا ہے کہ 2 موٹر سائیکلوں پر سوار 4 کم عمر مسلح ملزمان پکوان سینڑ میں موجود عملے اور دیگر افراد سے بلاخوف و خطر موبائل فونز اور نقدی چھین کر بآسانی فرار بھی ہوگئے۔ 

ہفتے کے روز کو رنگی صنعتی ایرا تھانے کی حدود کو کورنگی ای بی ایم کازوے پر ہونے والی تاریخ کی بدترین مسلح ڈکیتی کی واردات کے دوران جدید اسلحے سے لیس ڈاکوؤں نے ناکہ لگا کر ٹریفک کو روک خواتین سمیت 80 سے زائد شہریوں کو اطمینان سے لوٹ کر قیمتی موبائل فونز، لاکھوں روپے نقد اورزیورات پہنی خواتین کو رکشوں اور گاڑیوں سے اتار کر زیورات نوچ لیے، جب کہ لوٹ مار کے دوران تھوڑی سی بھی مزاحمت کر نے پر ڈاکوؤں نے شہریوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا، گاڑیوں کے شیشے توڑے، کسی کا موبائل چھینا، کسی کا پرس نکالا، اور متعدد شہریوں سے نقدی رقم اور قیمتی موبائل فونز چھین کر بآسانی فرار بھی ہو گئے۔ 

ڈاکووں کی طوفان بدتمیزی کے باعث متعدد شہری خوف زدہ ہو کر اپنی گاڑیاں چھوڑ کر بھاگ رہے تھے، جب کہ واردات کی بر وقت اطلاع ملنے کے باوجود پولیس روایتی طور انتہائی تاخیر سے اس وقت پہنچی ، جب ڈاکو سکون کے ساتھ شہریوں کو لوٹ کر فرار ہوچکے تھے۔ ایس ایس پی کورنگی نے ایس ایچ او کورنگی صنعتی ایریا جان محمد بروہی کو اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں کنٹرول نہ کرنے پر فوری معطل کر دیا ہے۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید