خیبر پختونخوا میں31مارچ کو دوسرے مرحلہ کے ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے لئے سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کی طرف سے انتخابی سرگرمیاں تیز کر دی گئی ہیں خیبر پختونخوا میں عوام کی طرف سے بڑھتے ہوئے معاشی بحران غربت بدحالی بے روزگاری و مہنگائی کی وجہ سے حکمران جماعت کا ساتھ نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے حکمران جماعت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا حکمرانوں کے خلاف دلیرانہ جدوجہد کی وجہ سے عوام کی طرف سے مولانا فضل الرحمن اور جمعیت علمائے اسلام کا بھر پور ساتھ دیا گیا۔
جبکہ حکمران جماعت کے کئی ارکان اسمبلی کی طرف سے بھی حکمران جماعت کے امیدواروں کے مقابلہ میں دوسرے امیدواروں کا ساتھ دینا بھی حکمران جماعت کی شکست کا باعث بنا۔ پہلے مرحلہ کے بلدیاتی انتخابات میں حکمران جماعت کے کارکنوں کی طرف سے حکمران جماعت کے امیدواروں کی مخالفت کرنے اور دوسرے امیدواروں کا ساتھ دینے والے حکمران جماعت کے ارکان اسمبلی کے خلاف مظاہرے ہوئے اور وزیراعظم سے پارٹی کے نامزد امیدواروں کے مقابلہ میں دوسرے امیدواروں کی حمایت کرنے والے ارکان اسمبلی کے خلاف تادیبی کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔
تاہم حکمران جماعت کی طرف سے پارٹی کے فیصلوں سےبغاوت کرنے والے امیدواروں کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے مصلحتاً خاموشی اختیارکر لی گئی۔ خیبر پختونخوا میں دوسرے مرحلہ کے ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بھی ایک بار پھر حکمران جماعت اختلافات کا شکار ہو گئی۔ تحریک انصاف کے بانی و نظریاتی کارکنوں کی طرف سے موروثی سیاست کا خاتمہ کرنے اور پارٹی کے لئے طویل جدوجہد کرنے والے مخلص کارکنوں کی بجائے ارکان اسمبلی کے بیٹوں رشتہ داروں و چہیتوں کو ٹکٹ دینے کے خلاف مظاہرے شروع کر دیئے گئے ہیں اور ارکان اسمبلی کے امیدواروں کے مقابلے میں تحریک انصاف نظریاتی کی طرف سے اپنے امیدوار لانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
خیبر پختونخوا میں دسمبر میں پہلے مرحلہ کے بلدیاتی انتخابات میں حکمران جماعت کی شکست حکمران جماعت کے لئے بہت بڑا سیاسی دھچکا ہو گا۔ خیبر پختونخوا میں پہلے مرحلہ کے بلدیاتی انتخابات میں حکمران جماعت کی شکست کے بعد وزیراعظم کی طرف سے ملک بھر میں حکمران جماعت کی تنظیموں کو تحلیل کر دیا گیا جبکہ خیبر پختونخوا میں حکمران جماعت کے اختلافات کے خاتمے کے لئے وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کو پی ٹی آئی کا صوبائی صدر وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور کو صوبائی جنرل سیکرٹری اور زمانہ طالب علمی ہی سے سیاست میں سرگرم ذہین و تجربہ کار سیاسی رہنما اور صوبائی اسمبلی کے ممبر ظاہر شاہ طورو کی صوبائی سیکرٹری اطلاعات مقرر کر کے نئے عہدیداروں کو پارٹی کے اندر گروپ بندیاں و اختلافات کے خاتمے اور دوسرے مرحلہ کے بلدیاتی انتخابات میں حکمران جماعت کی کامیابی کو یقینی بنانے کا ٹاسک دیا گیا تاہم خیبر پختونخوا میں اب بھی پی ٹی آئی اختلافات کا شکار ہے جبکہ بلدیاتی انتخابات میں آزادانہ کردار ادا کرنے پر حکمرانوں کی طرف سے الیکشن کمیشن کو تنقید کا شنانہ بنانا شروع کر دیا گیا ہے۔
وزیراعظم کی طرف سے پشاور میں حکمران جماعت کے امیدوار کی شکست اور جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار حاجی زبیر علی کی کامیابی پر الیکشن کمیشن کو تنقید کا نشانہ بنانے کے سلسلے میں جمعیت علمائے اسلام کے رہنمائوں کی طرف سے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ حکمران جعلی کامیابی کے لئے الیکشن کمیشن کو اپنا تابع بنانے چاہتے ہیں۔ حکمران جماعت کی الیکشن کمیشن کی وجہ سے نہیں مہنگائی کی وجہ سے شکست ہوئی۔ عوام نے الیکشن میں حکمرانوں سے مہنگائی کا بدلہ لے لیا ہے اور عوام دوسرے مرحلہ کے بلدیاتی انتخابات میں حکمرانوں سے مہنگائی کا بدلہ لیں گے۔
خیبر پختونخوا میں تحریک صوبہ ہزارہ کی طرف سے ہزارہ کو الگ صوبہ بنانے اور تحریک اتحاد قبائل کی طرف سے قبائلی علاقوں پر مشتمل صوبہ قبائلستان بنانے کے لئے جدوجہد تیز کرنے کااعلان کیا گیا ہے۔پاکستان مسلم لیگ کے صوبائی جنرل سیکرٹری و سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی مرتضیٰ جاوید عباسی کی طرف سے ہزارہ کو الگ صوبہ بنانے کے لئے قومی اسمبلی، مسلم لیگ کے مرکزی سینئر نائب صدر و سابق وزیراعلیٰ سینیٹر پیر صابر شاہ کی طرف سے ہزارہ کو الگ صوبہ بنانے کے لئے سینٹ اور مسلم لیگ کے صوبائی اسمبلی کے ممبر سردار یوسف کی طرف سے ہزارہ کو الگ صوبہ بنانے کے لئے خیبر پختونخوا اسمبلی میں قرارداد جمع کروائی جا چکی ہے جبکہ تحریک استقلال کے سربراہ رحمت خان وردگ کی طرف سے سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے نام لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ملک میں انیس صوبے بنا کر ہی انتظامی صورتحال کو بہتر بنا کر عوام کی مشکلات کا ازالہ کیا جا سکتا ہے لہٰذا تمام سیاسی جماعتوں کو انیس صوبے بنانے کے لئے مل کر جدوجہد کرنی چاہئے ۔
قومی وطن پارٹی، نیشنل پارٹی، مزدور کسان پارٹی ، عوامی ورکرز پارٹی اور پختونخوا اولسی تحریک پر مشتمل پختونخوا جمہوری اتحاد کو نئے عمرانی معاہدے کے لئے جدوجہد تیز کرنے کے لئے پی ٹی ایم اور این ڈی ایم سے رابطے شروع کر دیئے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور اے این پی کے قائدین نے مشترکہ جدوجہد کے سلسلے میں رابطوں کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں کے ایک بار پھر منظم ہونے اور حکومت و تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کے بعد سیکورٹی فورسز و پولیس پر حملوں بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں جبکہ پولیس سٹیشنز اور پولیس کی موبائل گاڑیوں پر بھی حملے شروع کر دیئے گئے ہیں۔