کراچی(ٹی وی رپورٹ)پیپلز پارٹی کی رہنما سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا ہے کہ بھارت اس وقت چین کیخلاف ایک اہم مہرہ ہے، یورپی یونین میں انسانی حقوق کے حوالے سے کشمیر پر بہت زیادہ آواز بلند کی جاسکتی ہے، ضرورت ہے ہم اپنے کارڈ اسمارٹ طریقے سے کھیلیں.
وہ جیو نیوز کے پروگرام ’جرگہ‘ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کررہی تھیں، سلیم صافی نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت ہر جگہ جوڑ توڑ ہو رہی ہے لیکن آج ہم خارجہ پالیسی کے حوالے سے بات کریں گے۔ اس حوالے سے حنا ربانی کھر نے کہا کہ یہ پہلا سال تھا کہ روسی وزیر خارجہ نہیں آئے۔
چین کی مثال ہمارے سامنے ہے انہوں نے پچاس ساٹھ سال مکمل طور پر جنگی ماحول ختم کرکے اپنے ملک کی معیشت بہتر کرنے میں لگا دیئے پھر وہ اُبھر کر آئے یہی مقصد ہونا چاہئے، بے شک ملک کی کوئی بھی پالیسی ہو اس کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ پاکستانی عوام کو فائدہ پہنچایا جائے۔
ہم ابھی بھی جو فیصلہ کر رہے ہیں وہ 2022کے مطابق نہیں ہے وہ1980-90کے مطابق ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہئے امریکا کو نائن الیون کے بعد پاکستان کی ضرورت تھی اس وقت حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا فوکس ساؤتھ ایشیا سے نکل گیا ہے ہم کہتے ہیں ہمیں غیرجانبدار رہنا ہے اس ماحول میں ہم روس چلے جاتے ہیں۔ امریکا مخالف ہونا لوگ سیاسی کارڈ سمجھتے ہیں جبکہ میں سمجھتی ہوں کہ ہمیں صرف پرو پاکستان ہونا چاہئے۔
وزیراعظم کہتے ہیں کہ ہم غیر جانبدار ہیں نہ امریکن، نہ چینی اور نہ روس ہم کسی بلاک میں نہیں ہیں، اس سوال کے جواب میں سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا کہ غیرجانبدارانہ کا مطلب ہوتا ہے کہ غیرجانبدارانہ رہا جائے، آپ نے یواین کے ووٹ میں پرہیز کیا ہم میں سے کسی نے نہیں کہا کرنا چاہئے تھا ضرور کرنا چاہئے تھا ضروری ہے ہم اپنے کارڈ اسمارٹ طریقے سے کھیلیں۔
چین کے ساتھ حالات اچھے نہیں ہیں سی پیک ٹو کب سائن ہوا ہے نہیں جانتی، منسٹرز غیر ذمہ دارانہ بیانات دیتے ہیں تو اس لئے سوال اٹھتا ہے کہ کیا غیرجانبدارانہ یہ ہوتا ہے کہ پاکستان کو آئسولیٹ کر دیا جائے۔
اگر چین کے ساتھ یہ ایشو ہوتا تو وہاں جانا صحیح تھا کیونکہ چین سے تعلق بہت الگ ہے لیکن اگر آپ روس چلے جاتے ہیں ان سے تعلق کی نوعیت الگ ہے وہاں اس طرح جانا مناسب نہیں تھا۔ حنا ربانی کھر نے مزید کہا کہ میری نظر میں اس وقت پاکستان کا وہاں جانا پاکستان کیلئے نقصاندہ ثابت ہوا۔ ہم نے ہیلری کو پلین میں بیٹھا کر چین کے پاس بھیجا تھا ہم نے چین اور امریکا کے درمیان دروازہ کھولا تھا یہ پاکستان کی فارن پالیسی تھی یہ وقار تھا آج آپ دونوں ہاتھوں سے مانگتے ہیں پھر انہی کے پاس جاتے ہیں پھر ان کو گالیاں دیتے ہیں آپ سمجھ رہے ہیں کہ آپ پاکستان کے وقار کو بہتر کر رہے ہیں۔
بھارت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، بھارت اس وقت چین کے خلاف ایک اہم مہرہ ہے اور اُس کو اس وقت سو خون معاف ہیں اب جو وہ کر رہے ہیں مسلمانوں کے خلاف کشمیریوں کے خلاف ان سب کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔
اسلامک ورلڈ اس وقت یو اے ای بحرین کے ڈیفنس منسٹر بہت فخریہ کہہ رہے تھے کہ ہم اس خطہ کا نقشہ بدل رہے ہیں اور اسرائیل کے ساتھ اینگیج کر رہے ہیں ٹیکنالوجی لے رہے ہیں یو اے ای کے ڈپٹی فارن منسٹر تھے وہ بھی یہی کہہ رہے تھے.
اسرائیل کے ڈپٹی پرائم منسٹر وہ بھی یہی کہہ رہے تھے اور اس میں فلسطین کا جو ایشو ہے اس کو گرنے دیا ہے اور مسلم امہ ایک نہیں ہے سب اپنے مفادات میں تقسیم ہوئی ہے۔ میری نظر میں یورپی یونین میں انسانی حقوق کے حوالے سے کشمیر پر بہت زیادہ آواز بلند کی جاسکتی ہے یہ کہہ کر کہ وہاں انسانیت کے خلاف ہو رہا ہے ان کے حقوق پامال ہو رہے ہیں۔
حنا ربانی کھر نے مزید کہا کہ یہ کہنا کہ ہم غیرجانبدار ہیں پھر لوگوں کو گالیاں دینا اور یہ کہنا کہ ہم اس کے بھی خلاف ہیں اس نے غلط کیا یہ نہیں کرنا چاہئے، ضروری ہے کم اور سوچ سمجھ کر بولیں اور بولنے سے پہلے ہوم ورک پورا ہونا چاہئے اور حالیہ پالیسی پتہ ہونی چاہئے۔
اگر افغانستان فورس اچھی نہیں تھی تو پھر 2020میں امریکا نے چار صفحات کا معاہدہ کیوں کیا تھا؟ دنیا کے کسی ملک نے انہیں recognize نہیں کیا سوائے امریکا کے، اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ کس کو ویزا دیں گے کس کو نہیں دیں گے بنیادی طور پر امریکا نے اُن کو مان لیا تھا۔