• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آباد (قاسم عباسی) کیا ایران کے پاس جوہری ہتھیار ہیں؟ کیا ایران کے پاس جوہری ہتھیاروں کی عدم موجودگی حکومت کے مسلسل وجود کے لیے ایک وجودی خطرہ ہے؟ اسرائیل کے حالیہ ایران پر حملے کا ’’نام نہاد‘‘ مقصد، ایران کو جوہری ہتھیار تیار کرنے سے روکنا تھا۔ اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے کہا کہ فوجی کارروائی ملک کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے کی گئی ہے۔ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی نے اسرائیل کے حملے سے چند گھنٹے پہلے یہ اعلان کیا کہ ایران اپنے غیر پھیلاؤ کے عہدوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ ماہرین کے نزدیک، ان حملوں کے بعد ایران کے ایک ممکنہ اختیار میں جوہری ہتھیاروں کی تیاری جاری رکھنا ہو سکتا ہے جسے اسرائیل ’’وجودی خطرہ‘‘ سمجھتا ہے۔ واشنگٹن میں مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے پالیسی کے نائب صدر کینتھ پولاک نے کہا کہ بہت سے ایرانی رہنماؤں کے لیے، جوہری ہتھیاروں کے بغیر (یا انہیں حاصل کرنے کی صلاحیت کے بغیر) ایران، خود حکومت کی بقا کے لیے ایک وجودی خطرہ ہے۔ کینتھ پولاک کے تجزیے میں یہ جھلک نمایاں تھی کہ اسرائیل نے پنڈورا کا ڈبہ کھول دیا ہے: ایران کا بدترین ردعمل شاید سب سے زیادہ ممکن بھی ہو سکتا ہے، یعنی اپنے ہتھیاروں کے کنٹرول کے وعدوں سے دستبردار ہونے اور سنجیدگی سے جوہری ہتھیار بنانے کا فیصلہ۔ مزید برآں، بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایران نے یورینیم کو 60 فیصد تک افزودہ کیا ہے، جو ہتھیاروں کے معیار کی سطح (جسے آئی اے ای اے اکثر 90 فیصد یورینیم سمجھتا ہے) سے محض ایک مختصر تکنیکی قدم دور ہے۔ ایجنسی نے کہا کہ وہ 2021 سے ملک کی یورینیم کی کل فراہمی کی تصدیق نہیں کر سکی لیکن اندازہ ہے کہ 17 مئی 2025 تک یہ تقریباً 9247 کلوگرام ہو گی۔
اہم خبریں سے مزید