• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

بلدیاتی انتخابات: جے یو آئی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا؟

صوبائی دارالحکومت پشاور میں ایک مسجد پر ہونیوالے خود کُش حملے اور قبائلی ضلع باجوڑ میں بم دھماکے نے ایک مرتبہ خیبرپختونخوا میں امن و امان کی صورت حال کے حوالے سے خطرےکی گھنٹی بجادی ہے تو دوسری طرف دہشت گردی کے حالیہ واقعات نے کئی سوالات کھڑے کر دئیے ہیں ، کیونکہ حکومت ایک عشرے سے دہشت گردی کو کچلنے اور دہشت گردوں کو شکست دینے کے بلندبانگ دعوے کرتی آرہی ہے ، جس کا بنیادی مقصد افغانستان سے دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کا پاکستان میں داخلہ روکنا تھا۔

اسی طرح افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد وہاں این ڈی ایس اور بھارتی ایجنٹوں کا بھی خاتمہ ہوچکاہے اس کے بعد پاکستان اور خصوصاً خیبرپختونخوا میں خود کس حملوں اور بم دھماکوں کے حوالے سے یقیناً شکوک و شبہات جنم لیں گے ،حیران کن امر یہ ہے کہ دہشت گردی کے ان حالیہ افسوسناک واقعات میں کوئی خاص پیش رفت اور اصل ذمہ داروں تک پہنچنے سے قبل سوشل میڈیا پر سیکورٹی اداروں کی جانب سے اس قسم کے مزید واقعات کے الر ٹ جاری ہونے کے پیغامات سامنے آئے ہیں جن میں شہریوں کو شہر کے معروف اور گنجان آباد مارکیٹوں اور رش والے علاقوں میں جانے سے گریز کرنے اور سرکاری اہلکاروں کو احتیاط برتنے کی ہدایت کی گئ ہے۔

اگرچہ اس قسم کے الرٹ اور پیغامات کی سرکاری طورپر کسی قسم کی تصدیق یا تردید سامنے نہیں آئی۔ دوسری جانب بلدیاتی الیکشن کی تیاریوں کے ساتھ ساتھ صوبے میں مجموعی سیاسی سرگرمیوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے گویا ایک طرح سے سیاسی جماعتوں نے عام انتخابات کی بھی تیاریوں کا آغاز کردیا ہے۔ صوبے کے 18اضلاع میں دوسرے مرحلے کے انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں اور انتخابات میں حصہ لینے والے بلدیاتی امیداروں کےلئے نظر ثانی شدہ ضابطہ اخلاق جاری کیا گیا جسکے تحت وزیراعظم ،گورنر، وزیراعلیٰ اوروفاقی اور صوبائی وزراء کے ان اضلاع اور حلقوں کے دوروں پر پابندی عائد کی گئ جہاں بلدیاتی انتخابات ہورہے ہیں، جبکہ ارکان اسمبلی کو مشروط اجازت دی گئی ہے۔ 

تاہم جن اضلاع میں انتخابات ہورہے ہیں وہاں سرکاری عہدیدار کے لئے کسی قسم کے ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات نہ کرانے کی شرط رکھی گئی لیکن الیکشن کمیشن کی نظرثانی شدہ ضابطہ اخلاق جاری کرنے کے باوجود وزیر اعلیٰ نے نہ صرف ترقیاتی منصوبوں کا ڈھکے چھپے الفاظ میں اعلان کیا بلکہ اس دوران وزیر اعظم عمران خان نے بھی الیکشن کمیشن کےروکنے کے باوجود ضلع دیر کے علاقے تیمر گرہ میں بڑے سیاسی جلسے میں شرکت اور جلسے سے خطاب کردیا، نہ صرت الیکش کمیشن کے ضابطہ اخلاق کو پس پشت ڈالا گیا بلکہ جلسے سے خطاب کے دوران وزیراعظم نے اپوزیشن کے خلاف جس زبان کا استعمال کیا اس پر خود پاکستان تحریک انصاف کے اپنے لوگ بھی حیران ہیں۔یہی سیاسی لیڈر آج نہیں تو کل پھر سے اتحادی ہونگے لیکن عام سیاسی کارکنوں کا آپس کی دشمنی اور اختلافات میں اضافہ ہوگا۔ 

ادھر اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کیلئے تیاریاں زوروں پر ہے اس دوران عوام کو بھی سڑکوں پر لانے کا کہا گیا جبکہ صوبائی حکومت نے جاری اسمبلی اجلاس کے دوران وزیر اعظم پر بھر پور اعتماد کیلئے ایوان سے قرار داد منظور کروائی ہے۔ اسمبلی کے اس جاری اجلاس کے دوران حکومتی ارکان عدم اعتماد کے ووٹ کا ناکام جبکہ اپوزیشن نے اسے ہر حال میں کامیاب ہونے کا دعویٰ کیا خیبر پختونخوا اسمبلی 145ارکان میں پاکستان تحریک انصاف کے 93ارکان ہیں۔ 

صوبے میں پی ٹی آئی نے تقریبا نو سال حکومت کی ہے اس دوران پی ٹی آئی کے کئی ناراض ارکان بھی سامنے آئے لیکن ان ناراض ارکان اسمبلی کو کسی نہ کسی طریقے سے رام کیا گیا آج بھی پی ٹی آئی کے اندر ناراض گروپ موجود ہے سینٹ کے انتخابات سمیت بلدیاتی انتخابات میں بھی پی ٹی آئی کے بعض لوگوں نے کھل کر پارٹی سے ہٹ کر اُ میدواروں کو سپورٹ کیا۔ 

کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم نے گورنر شاہ فرمان اور وزیر اعلی کی ذمہ داری لگائی ہے کہ وہ ہر حال میں ناراض ارکان اسمبلی کو راضی کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائیں۔ ہزارہ اور باالخصوص ملاکنڈ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے بعض ارکان اسمبلی سے دیگر سیاسی جماعتوں نے رابطے شروع کئے ہیں۔ 

وزیر دفاع پرویز خٹک کے بھائی لیاقت خٹک نے جمعیت علماء اسلام (ف) میں باقائدہ شمولیت اختیار کرچکے ہیں۔ بلدیاتی الیکشن کے بعد جے یو آئی کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے اور جب گذشتہ روز پارلیمنٹ لاجز میں رونماء ہونیوالے واقعے کے بعد مولانا فضل الرحمان نے احتجاج کے طور پر سڑکوں کو بند کرنے کی ہدایت کی تو رات کے وقت کارکنوں کی ایک بڑی تعداد موٹر وے بند کرنے کیلئے پہنچ گئی۔ اس امر سے حکومت کی بجائے عوام الناس کو شدید مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ 

عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ موجودہ حکومت کو ختم بھی کیا جائے تو اپوزیشن کے پاس کونسی ایسی پالیساں ہیں جس سے مہنگائی اور بے روزگاری میں کمی لاسکیں گے امن قائم ہوگا اور بے روز گاروں کو روزگار، ملکی و بیرون قرضوں کی واپسی ، بجلی گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو کم کرنے کیلئے لائحہ عمل کیا ہوگی۔ جس طرح اپوزیشن کے ارکان آج احتجاج کررہے ہیں بالکل اسی طرح کل کو آج کے حکمران جماعت انہیں الزامات کے تحت ملک بھر میں احتجاج کریں اور اسے جمہوریت کا حسن اور اپوزیشن کا حق گردانیں گے یوں عوام کی مشکلات میں روز بہ روز اضافہ ہوگا اور اسکا نقصان جمہوری اداروں کو پہنچے گا۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید