وزیر اعظم عمران خان کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد اب فائنل راؤنڈ میں داخل ہو گئی ہے۔قومی سیا سی منظر نامہ دلچسپ صورتحال اختیار کر چکا ہے ۔ پوری قوم کی نظریں تحریک عدم اعتماد کے نتائج پر لگی ہیں۔ ہر شخص کی زبان پر ایک ہی سوال ہے کہ کیا تحریک عدم اعتماد کا میاب ہوگی یا ناکام ۔ اس سوال کا جواب دینا اسلئے مشکل ہے کہ سیاست ممکنات کا کھیل ہے۔
نتیجہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ تحریک کی کا میابی اور نا کامی کا فیصلہ تو قومی اسمبلی کے ممبران نے 28مارچ کوکرنا ہے لیکن اس سے پہلے ہی سیا سی ماحول تلخ ہو گیا ہے بلکہ یوں لگتا ہے کہ اگر طاقتور حلقوں نے مداخلت نہ کی تو حالات تصادم کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ اس کی ابتدا ء خود وزیر اعظم کی جانب سے ہوئی ہے جنہوں نے پارٹی عہد یداروں کو 27مارچ کو دس لاکھ افراد شا ہرا ہ دستور پر جمع کرنے کی ہدایت کردی۔ جواب میں پی ڈی ایم کے سر براہ مولانا فضل الر حمن نے23مارچ کی کال دی تھی ۔ لیکن او آئی سی اجلاس کی وجہ سے انہوں نے اپنی تاریخ آگے بڑھا دی ہے۔ انہوں نے کا رکنوں کو شاہراہ دستور پہنچنے کی کال دی ہے جس کیلئے ملک بھر سے قافلے نکلیں گے۔یہ بات نا قابل فہم ہے کہ جب فیصلہ ممبران اسمبلی نے کرنا ہے تو شاہراہ دستور پر جلسہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
اگر وزیر اعظم کو اپنے پارٹی ممبران کا اعتماد حاصل ہے تو پھر وزیر اور مشیر ارکان اسمبلی کو یہ دھمکیاں کیوں دے رہے ہیں کہ انہیں دس لاکھ افراد سے گزر کر پارلیمنٹ ہا ئوس جا نا پڑے گا۔ آئین ہر رکن اسمبلی کو آ زادنہ نقل وحمل کی اجازت دیتا ہے ۔ بہرحال حکومت اور اپو زیشن دونوں آخری لمحے تک جو ڑ توڑ میں مصروف ہیں۔ لمحہ بہ لمحہ صورتحال بد ل رہی ہے۔ دونوں نے فیصلہ کن معرکہ آ رائی کیلئے صف بندی کرلی ہے۔ سب نے اپنے اپنے کارڈ چھپا کر سینے سے لگا ئے ہوئے ہیں۔ فیصلہ کی گھڑی آن پہنچی ہے۔دونوں کا میابی کیلئے پراعتماد ہیں۔
بلاشبہ وزیر اعظم عمران خان کو اپنے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار کے سب سے بڑے اور مشکل چیلنج کا سا منا ہے۔ انہوں نے تحریک عدم اعتماد کو کائونٹر کرنے کیلئے عوامی اجتماعات سے خطاب کیا اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ وہ پر اعتماد ہیں اور انہیں بھر پور عوامی تائید و حمایت حاصل ہے لیکن ان کے لب و لہجہ کی تلخی اس بات کی چغلی کھا رہی ہے کہ کپتان گھبرا ئے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف ‘ مو لانا فضل الرحمن اور بلا ول بھٹو کے نام بگاڑ کر پکارنے سے کوئی قابل تقلید روایت قائم نہیں کی۔
غیر شائستہ انداز اختیار کرنے سے خود انہوں نے اپنے وقار کو مجروح کیا ہے۔یہ انداز گفتگو وزیر اعظم کے عہدہ کے شایان شایان ہر گز نہیں بلکہ ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے۔ ویسے بھی جب کوئی گالم گلوچ اور دھمکی آ میز رویہ اختیار کرتا ہے تو اسے ہارے ہوئے شخص کی زبان سے تعبیر کیا جا تا ہے۔سیا ست میں اختلاف رائے جمہوری عمل کا حصہ ہو تا ہے مگر اسے دشمنی میں تبدیل نہیں کرنا چاہئے ۔ ذاتیات پر نہیں اترنا چاہئے۔ اس کے نتیجے میں بلاول بھٹو اور مو لانا فضل الر حمنٰ نے بھی جوابی وار کئے ۔
اصولی طور پر کسی جانب سے بھی اہانت آ میز جملے استعمال نہیں کئے جانے چاہئیں لیکن اعلیٰ اخلاقی اور جمہوری اقدار میں پہل کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے تاکہ سیا سی ماحول میں تلخی نہ ہو۔ بدقسمتی سے وزیر اعظم عمران خان کامزاج ایسا ہے کہ انہوں نے ساڑھے تین سال میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنا تو در کنار ہاتھ تک نہیں ملایا۔ حالانکہ اپو زیشن کی جماعتیں بھی اسی طرح عوام کی نمائندگی کرتی ہیں جس طرح حکومتی جماعت اور اس کے اتحادی ۔اپوزیشن لیڈر کا عہدہ آئینی عہدہ ہے۔
چیئر مین نیب اور الیکشن کمیشن کے دو ممبران کی تقرری آئین کے تحت وزیر اعظم نے اپو زیشن لیڈر کی مشاورت سے کرنی ہے لیکن وزیر اعظم کی انا آڑے آ رہی ہے۔وزیر اعظم عمران خان کے نادان مشیروں نے انہیں تصادم کی سیا ست کی جانب دھکیل د یدیا ہے۔اپو زیشن جب سڑکوں پر تھی تو حکومتی مشیر انہیں پارلیمنٹ میں بات کرنے کا درس دیتے تھے۔ اب تحریک عدم اعتماد قو می اسمبلی میں پیش کی گئی ہے۔ یہ اپوزیشن کا جمہوری اور آئینی حق ہے۔ اس پر اس قدر جا رحانہ بلکہ اشتعال انگیز ردعمل نا قابل فہم ہے۔ بجا ئے اس کے کہ اپو زیشن کی تحریک عدم اعتماد کو نا کام بنانے کیلئے ممبران قومی اسمبلی سے رابطوں تک محدود رکھا جا ئے وزیر اعظم خود جلسے کرنے نکل پڑے۔
پھر اسی پر اکتفا نہیں بلکہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے ایک دن پہلے پارلیمنٹ ہا ئوس کے سامنے جلسہ کی کال دیدی گئی ۔ یہ کا ل بھی پہلے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے دی جس کی تو ثیق پھر وزیر اعظم نے کردی ۔سوال یہ ہے کہ یہ عو امی اجتما ع کس پر دبائو ڈالنے کیلئے منعقد کیا جا ر ہا ہے۔ پارلیمنٹ لا جز میں جے یو آئی ف کے رضاکاروں کے ایشو کو بھی جس طرح مس ہینڈل کیا گیا وہ افسوسناک ہے۔ پارلیمنٹ لاجز کو میدان جنگ بنا نے سےبھی حکومتی وقار مجروح ہوا ہے۔
اگر جے یو آئی کے دو ممبران اسمبلی اور ر ضاکاروں کو رہا نہ کیا جا تا تو صورتحال مزید بگڑ سکتی تھی ۔وزیر داخلہ شیخ رشید احمد وزیر اعظم عمران خان کی خوشنودی کیلئے تیز زبان استعمال کرتے ہیں جس سے سیا سی ماحول خراب ہوتا ہے۔ کوئٹہ میں انہوں نے یہ بیان داغ دیا کہ پانچ پانچ ووٹوں والی جماعتیں وزارت اعلیٰ کیلئے بلیک میل کر رہی ہیں۔ جواب میں وفاقی وزیر مونس الہیٰ نے انہیں اپنے بزرگوں سے پیسے لینے کا طعنہ دیدیا۔ سنیٹر کامل علی آ غا نے مانگے تانگے کی سیاست کا جملہ کس دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے ہی دن شیخ رشید احمد نے سیز فائر کیلئے وضاحتی بیان دیا جس کا مونس الہیٰ نے خیر مقدم کیا۔
وزیر اعظم عمران خان نے دیر کے جلسہ میں جس طرح آرمی چیف جنرل باجوہ کا نام لے کر یہ کہا کہ انہوں نے مجھے کہا ہے کہ مو لا نا فضل الر حمن کو نام نہ بگاڑیں ۔ وزیر اعظم کو یہ نجی گفتگو جلسہ نہیں بتانا چاہئے تھی ۔ اسی جلسے میں وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ نیوٹرل جانور ہوتے ہیں۔ اس کی بھی تعبیر اور تشریح کا جومفہوم لیا جا ر ہاہے اس کا وزیر اعظم کو نقصان ہو گا۔ وزیر اعظم کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ جتنے بھی اچھے کپتان ہوں لیکن غصے اور اشتعال سے کوئی جنگ نہیں جیتی جا سکتی ۔ جنگیں موثر حکمت عملی اور حکمت و دانائی سے جیتی جا تی ہیں۔ سیا ست بغیر برداشت اور حوصلے کے نہیں کی جا سکتی۔
سیاست میں روداری اور باہمی احترام بہت ضروری ہے۔ تحریک عدم اعتماد کا جو بھی نتیجہ نکلے اسے تسلیم کیا جائے ۔ وزیر اعظم کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ یہ دھمکیاں دیں کہ تحریک عدم اعتماد کی نا کامی کے بعد میں انہیں نہیں چھوڑوں گا۔ اپنے ممبران اسمبلی کو یہ دھمکی دینا بھی مناسب نہیں کہ ووٹنگ کے روز کسی حکومتی رکن کو پارلیمنٹ ہاؤس نہیں جانے دیں گے۔ حکومتی مشیر یہ عجیب قانونی تشریح بھی نکال لائے ہیں کہ اگر کسی حکومتی رکن نے عدم اعتماد کی تحر یک میں حصہ لینے کی کوشش کی تو اسے نااہل قرار دید یا جائے گا۔
اس کلاز کا اطلاق کسی رکن کی نیت یا ارادے پر نہیں ہوتا اس کے فلو ر کراسنگ کے عمل پر ہوتا ہے۔کسی رکن کی پارلیمنٹ میں نقل و حمل پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی اور نہ ہی اسے حکومتی فیصلہ کے خلاف ووٹنگ سے زبردستی روکا جا سکتا ہے البتہ ووٹنگ کے بعد تا د یبی کا روائی کی جاسکتی ہے جس کا طر یقہ کا ر درج ہے۔ تحریک عدم اعتماد پیش کرکے اپو زیشن نے بہت بڑ اجوا کھیلا ہےجس کا نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا ہے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ اگر کا میابی کا یقین نہ ہوتا تو وہ یہ تحریک پیش ہی نہ کرتے لیکن سوال یہ ہے کہ جب اسپیکر سے یہ خطرہ ہے کہ وہ حکومت کو سپورٹ کریں گے تو پھر اور ڈپٹی اسپیکرکے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کیوں پیش نہیں کی گئی۔
بظاہر حکومت کی اتحادی جماعتوں کا جھکائو اپو زیشن کی جانب ہے۔ اگر اتحادی جماعتوں نے اپنی نشستیں حکومتی بنچوں سے الگ کرنے کی درخواست دیدی تو وزیر اعظم کے پاس استعفے کے سوا کوئی آپشن نہیں رہے گا۔ وزیر اعظم کو خود اپنی پارٹی سے بھی ممبران کی جانب سے بغاوت کا سامنا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ممبران اسمبلی کی نظر یں اب اگلے الیکشن پر ہیں ۔ اتحادی جماعتیں بھی اگلے الیکشن کے تناظر میں صف بندی کر رہی ہیں۔بہر حال اسٹیج سج چکا ہے۔
اعصاب شکن سیا سی معرکہ آخری مرحلہ میں داخل ہوچکا ہے۔ فیصلہ کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ تحریک کامیاب ہوئی تو تبدیلی سر کار تبدیل ہو جا ئے گی اور عمران خان دو بارہ کنٹینر پر سوار ہو جائیں گے۔ اور ناکام ہوئی تو وزیر اعظم عمران خان پہلے سے زیادہ طاقتور سیا ست دان بن کر سامنے آ ئیں گے ۔ آئین کے تحت چھ ماہ تک وزیراعظم کے خلاف دو بارہ تحریک عدم اعتماد پیش نہیں کی جا سکتی ۔ چھ ماہ کے بعد الیکشن کا سال شروع ہو جا ئے گا۔ پھر اگلا سیا سی معرکہ 2023میں ہوگا۔