• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

’’باپ‘‘ کے رہنماؤں میں دوریاں بڑھنے لگیں

وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر قومی اسمبلی میں بلوچستان کی پارلیمانی جماعتیں جہاں واضح موقف کے ساتھ تحریک عدم اعتماد کی حامی ہیں وہاں صوبے میں حکمراں جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کا اس حوالے سے کوئی متفقہ اور واضح فیصلہ سامنے نہیں آیا جس سے محسوس ہوتا ہے کہ جماعت کی قیادت ایک پیج پر نہیں جس سے اسے فیصلہ کرنے میں مشکل کا سامنا ہے، پارٹی کی مرکزی قیادت گزشتہ کئی دنوں سے اسلام آباد میں موجود اور انتہائی سرگرم رہی ہے اس دوران پارٹی کے رہنمائوں سمیت ارکان قومی اسمبلی کی ملاقاتوں کے سلسلے جاری رہے۔ 

اس دوران پارٹی کے بعض رہنمائوں کی جانب سے یہ بات سامنے آئی کہ بی اے پی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا ساتھ دے گی تاہم اس دوران وفاقی وزیر زبیدہ جلال کا ایک ٹوئٹ سامنے آیا کہ اس سلسلے میں متفقہ فیصلہ نہیں ہوسکا، اس کے بعد پارٹی کے بعض رہنمائوں کی جانب سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ پارٹی کے ارکان قومی اسمبلی تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے انفرادی فیصلے کریں گے تاہم اب تک اس سلسلے میں بھی کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آیا ہے، بلوچستان عوامی پارٹی کے قومی اسمبلی میں ارکان کی تعداد پانچ ہے، یوں تو قومی اسمبلی میں بلوچستان کے ارکان کی تعداد نہ صرف محاورے کے طور پر بلکہ حقیقی طور پر بھی آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں قومی اسمبلی میں بلوچستان کی 16 جنرل اور 4 مخصوص نشستیں ہیں تاہم وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں ان ارکان کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ 

بلوچستان سے جمعیت علما اسلام کی قومی اسمبلی میں 6 جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی کی 4نشستیں ہیں ، پاکستان تحریک انصاف کی تین نشستیں ہیں، جمعیت علما اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی تو پی ڈی ایم کا حصہ اور دونوں جماعتوں کی مرکزی قیادت وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں سرگرم ہیں جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی جو سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان کے خلاف اپنی جماعت کے اندر سے تحریک عدم اعتماد لانے اور کامیاب بنانے کے بعد سے ایک پیج پر نظر نہیں آرہی ، پارٹی کے انٹرا پارٹی الیکشن جو طویل عرصے سے نہیں ہوپائے ہیں اس حوالے سے سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان الیکشن کمیشن سے ایک سے زائد بار مہلت لے چکے تھے ،اس کے باوجود پارٹی کے قیام کے بعد اس کے انٹرا پارٹی الیکشن تاحال نہیں ہوسکے ہیں۔ 

اس دوران وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے پارٹی رہنمائوں سے ملاقات میں اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن جلد ہوں گے اس سلسلے میں رہنمائوں اور سینئر ورکروں سے پارٹی کے تنظیمی امور اور انٹرا پارٹی انتخابات کے حوالے سے مشاورتی عمل جاری ہے سب انتخابات کے جلد انعقاد پرمتفق ہیں ، بی اے پی صوبے کی سب بڑی سیاسی جماعت ہے جسے عوام کا اعتماد حاصل ہے، کسی کو مخاطب کیے بغیر انہوں نے کہا کہ پارٹی کے اصل وارث اس کے ورکرز ہیں اور کسی کو پارٹی پلیٹ فارم زاتی مفادات کے حصول کے لئے استعمال نہیں کرنے دیا جائے گا۔ 

انہوں نے واضح کیا کہ پارٹی متحد ہے اور کسی کو تفریق پیدا کرنے کی اجازت نہیں جائے گی ورکر متحد رہیں جلد پارٹی قیادت اور ورکروں کے مربوط روابط کا موثر میکینزم بنایا جائے گا پارٹی کارکنوں کو بدقسمتی سے ماضی میں نظرانداز کیا گیا لیکن ہم انہیں انکا جائز مقام دینگے انکے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جائیں گے، یہاں یہ بات قابل زکر ہے کہ جام کمال خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران ان کے مخالف پارٹی ارکان کی جانب سے سنیئر صوبائی وزیر میر ظہور احمد بلیدی کو پارٹی کا صدر منتخب کیا گیا تاہم اس دوران بھی جام کمال خان اور میر ظہور احمد بلیدی دونوں پارٹی کے صدر ہونے کا دعویٰ کرتے رہے تاہم کچھ عرصہ قبل وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کی جانب سے میر ظہور احمد بلیدی سے پی اینڈ ڈی کی وزارت کا قملدان واپس لیے جانے کے بعد میر ظہور احمد بلیدی وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو سے دور اور جام کمال خان لے قریب نظر آئے۔

وزارت کا قلدان واپس لیے جانے پر میر ظہور بلیدی نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھاکہ میں نے کابینہ کے آئینی فورم پر غریب صوبے کے 30 ارب کے وسائل کی بندر بانٹ پر آواز اٹھائی اور کرپشن کے بازار کا حصہ بننے سے انکار کیا فخر ہے میں نے عوام کے حقوق اور صوبے کے مستقبل کا سودا کرنے کی بجائے مزاحمت کا فیصلہ کیا۔ 

انہوں نے کہا کہ مجھے فخر ہے میں نے عوام کے حقوق اور صوبے کے مستقبل کا سودا کرنے کی بجائے مزاحمت کا فیصلہ کیا ، اب ایک ممبر کے طور پر نااہل لوگوں کا محاسبہ کروں گا ، نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے اپنی ہی جماعت کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہاں تک بھی کہہ دیا کہ صوبے کے عوام بے چینی اور پسماندگی کا شکار ہیں لیکن محکموں میں نوکریوں اور ٹھیکوں کی بولی لگی ہوئی ہےاوررکان اسمبلی کی اکثریت بلوچستان میں انتظامی اور مالی بریک ڈاون سے پہلے برائے فروخت حکومت کو گھر بھیجنے پر متفق ہوچکی ہے۔ 

آئینی طور پر عدم اعتماد پیش کرنے پر وقت کی کوئی قدغن نہیں ، عوام کو جلد خوشخبری دیں گے، پارٹی رہنمائوں کے بیانات اپنی جگہ لیکن اس وقت بلوچستان اسمبلی کی سب سے بڑی پارلیمانی جماعت کے رہنمائوں میں دوریاں سیاسی حلقوں میں محسوس کی جارہی ہے سیاسی حلقوں کی رائے ہے کہ ایسے میں پارٹی کی سنیئر قیادت آ گے آکر کردار ادا کرے تو پارٹی معاملات بہتری کی جانب جاسکتے ہیں بصورت دیگر پارٹی رہنمائوں کی دوریاں نہ صرف بلوچستان میں بی اے پی کی حکومت پر بلکہ جماعت کے لئے آئندہ عام انتخابات پر بھی اثر انداز ہوسکتی ہیں ۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید