• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے کا معاملہ چیف جسٹس کو بھیج دیا گیا

اسلام آباد (نمائندہ جنگ) سپریم کورٹ کی عدالتی کارروائی براہ راست نشر کرنے کی جانب بڑی پیش رفت ہوئی ہے۔ 

عدالت عظمیٰ کے لارجر بنچ نے عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے کا معاملہ چیف جسٹس کو بھیجتے ہوئے کہا ہے کہ چیف جسٹس عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے کا معاملہ فل کورٹ کے سامنے رکھیں۔ 

سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی عدالتی کارروائی براہ راست نشر کرنے کی متفرق درخواست مسترد کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے جس میں قرار دیا گیا ہے کہ عدالتی کارروائی کوئی بھی دیکھ سکتا ہے ، صحافی ، وی لاگرز اور بلاگرز عدالت میں موجود ہوتے ہیں جو عدالتی کارروائی کو عوام تک پہنچاتے ہیں ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پریس کی کوششوں کی تذلیل کی ہے جو بلا جواز ہے۔ 

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دس رکنی لارجر بنچ نے متفرق درخواست کی سماعت کی تھی جس کا مختصر فیصلہ 13 اپریل 2020 کو سنایا گیا تھا جبکہ وجوہات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ گزشتہ روز جاری کیا گیا۔ 

اکثریتی فیصلہ میں چھ ججز نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظرثانی درخواست کی عدالتی کارروائی کو براہ راست نشر کرنے کی درخواست کو مسترد کیا جبکہ چار ججوں نے جسٹس عیسیٰ کی ان کی فوری نظرثانی درخواست کو براہ راست نشر کرنے کی درخواست کی حمایت کی تھی۔

 جسٹس عمر عطا بندیال ، جسٹس سجاد علی شاہ ، جسٹس منیب اختر ، قاضی امین احمد اور جسٹس امین الدین خان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارتی ریفرنس سے متعلق نظرثانی درخواست کی کارروائی براہ راست نشر کرنے کی متفرق درخواست مسترد کی جبکہ جسٹس مقبول باقر ، جسٹس منظور احمد ملک ، جسٹس مظاہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس سید منصور علی شاہ نے اس کی حمایت کی۔ 

14 صفحات پر مشتمل فیصلہ عدالت عظمیٰ کے جسٹس منیب اختر نے تحریر کیا ہے۔ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے پر حکومتی وکیل کے اعتراضات ٹھوس ہیں ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظرثانی کیس کی عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے کی درخواست نا قابل سماعت ہے ، نظر ثانی کی درخواست میں اس قسم کی متفرق درخواست قابل سماعت نہیں۔ 

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ متفرق درخواست میں منفرد ریلیف عدالت سے مانگا گیا ہے ، آئین کے آرٹیکل 19 اے کے تحت عوام کو جاننے کا حق حاصل ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ، اس آرٹیکل کے تحت عدلیہ سمیت ریاستی ادارے عوامی اہمیت کے حامل معاملات میں عوام تک اطلاعات کی رسائی کو یقینی بنانے کے پابند ہیں ، عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے کے فائدے یا نقصانات کیا ہوں گے اس پر ہمارا عدالتی فیصلہ موجود نہیں ہے۔ 

عدالتی فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں لائیو براڈ کاسٹ ٹیکنالوجی کا استعمال ہو رہا ہے ، عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے کا معاملہ چیف جسٹس کو بھیجا جا رہا ہے ، چیف جسٹس عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے کا معاملہ فل کورٹ کے سامنے رکھیں۔

اہم خبریں سے مزید