اسلام آباد (نمائندہ جنگ) چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ججوں پر بے جا تنقید پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام جج انتہائی ایماندار اور قابل ہیں.
ججز پر انگلیاں اٹھانا اور الزامات لگانا بند کر دیں، جس بندے پر اعتراض ہے اس کا نام لیں، جسے شکایت ہے مجھ سے بات کرے ، میرے دروازے سب کیلئے کھلے ہیں، احسن بھون کس روایت کی بات کررہے ہیں؟، کسی جج کو بغیر ثبوت کے نشانہ نہیں بنایا جاسکتا.
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ عدالتی معاملات سوشل میڈیا میں زیر بحث نہیں آنے چاہئیں، جسٹس قاضی امین نے کہا کہ سپریم کورٹ میں خاتون جج کی تقرری تاریخی اقدام ہے.
پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین چوہدری حفیظ الرحمن نے کہا کہ بعض ججز اہل منصب کی بجائے سرکاری نوکر بن جاتے ہیں جو باعث تشویش ہے، صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن احسن بھون نے کہا کہ عدلیہ میں تعیناتی کےاصول وضع کئے جائیں۔
گزشتہ روز جسٹس قاضی امین احمد کی ریٹائرمنٹ کے موقع پرفل کورٹ ریفرنس منعقد ہوا جس میں سپریم کورٹ کے تمام ججز ، اٹارنی جنرل ، صدر سپریم کورٹ بار ، پاکستان بار کے ذمہ داران سمیت وکلا نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
چیف جسٹس نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ججز پر الزام تراشی کرنا غیر منصفانہ اور انتہائی نامناسب ہے، عام طور پر سخت الفاظ استعمال نہیں کرتا، ججز رولز کمیٹی میں میرے برابر جج نے طریقہ کار پر اتفاق رائے کیا ، ججز کیلئے سب سے اہم ان کی دیانتداری،اہلیت اور قابلیت ہے۔
سپریم کورٹ میں ججز انتہائی قابل اور پروفیشنل ہیں ، ججز تعیناتی کا طریقہ کار متفقہ طور پر وضع کیا جا رہا ہے۔
ججز کیلئے قابلیت ، روئیے ، بہترین ساکھ اور بغیر کسی خوف و لالچ کا معیار رکھا ہے۔ اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں ، ہم سب اللہ کو جواب دہ ہیں۔ وکلا کیس کی تیاری کئے بغیر عدالت سے رحم کی توقع رکھیں تو ایسا نہیں ہو سکتا۔ آج کمرہ عدالت نمبر ایک میں التوا کی کوئی درخواست نہیں آئی۔
ججز عدالتی وقت ختم ہونے کے بعد کئی گھنٹے تک مقدمات سنتے ہیں۔ کون سا مقدمہ مقرر اور کس بنچ میں ہوناہے یہ فیصلہ میں کرتا ہوں۔
چیف جسٹس نے صدر سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کا نام لیتے ہوئے کہا کہ احسن بھون کس روایت کی بات کر رہے ہیں؟ ادارے کی باتیں باہر کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ، گھر کی بات گھر میں ہی رہنی چاہئے، ججز نےاپنے حلف کی پاسداری کرنی ہے ، ججز خود پر لگے الزامات کا جواب نہیں دے سکتے ، فیصلوں پر تنقید کریں ججز کی ذات پر نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وائس چیئرمین پاکستان بار کا ججزکو تنخواہ دارملازم کہنا انتہائی نامناسب ہے۔ جج کا تحمل اور اس کی ہرقسم کے اندرونی یا بیرونی دباؤ سے آزادی اہم ہے ، براہ راست مجھ سے آ کر بات نہیں کرسکتے تو آپ محض اخباروں کی زینت بننا چاہتے ہیں ، کسی جج کو بغیر ثبوت کے نشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔
چیف جسٹس نے احسن بھون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو کون سی عدالتی پریکٹس پر اعتراض ہے؟ ہم بنا کسی دبائو سے کام کرنے والے لوگ ہیں، میرے رجسٹرار کو گالیاں دینا بند کریں ، میرے رجسٹرار کا 20 سالہ تعلیمی تجربہ ہے ، رجسٹرار کو قانون کا بھی علم ہے اور انتظامی کام بھی جانتے ہیں۔