کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے ق لیگ کے رہنما کامل علی آغا نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی سے ایم این ایز کی بڑی تعداد نکل چکی ہے، ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما عامر خان نے کہا کہ ہم پی ٹی آئی کے اتحادی ہیں ان کے پابند نہیں ہیں،اپنا فیصلہ اپنے عوام کے مسائل سامنے رکھ کر کریں گے، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ کوئی بھی حکومت میں ہو تو بڑے جلسے کرسکتا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما عامر خان نے کہا کہ کسی سیاستدان کی مقبولیت کا فیصلہ انتخابات کرتے ہیں، تحریک عدم اعتماد کی وجہ سے ہائپ پیدا ہوگئی ہے، حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے سخت زبان استعمال کی جارہی ہے، اپوزیشن اور حکومت دونوں کی طرف سے ہم سے ملاقاتیں ہورہی ہیں، پرویز خٹک اور اسد عمر نے ہم سے تحریک عدم اعتماد سے متعلق بات کی ہے، مخالفین پراپیگنڈہ کررہے ہیں کہ ایم کیوا یم پیسے اور وزارتیں لے رہی ہے، ایم کیو ایم کوئی بھی فیصلہ شہر، عوام اور ووٹرز کے مفاد میں کرے گی، ایم کیو ایم کو وزارتوں سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ عامر خان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی سے ہمیں کوئی زیادہ نقصا ن نہیں پہنچا، الیکشن میں جو ہماری سیٹیں لی گئیں اس پر ہمیں تحفظات ہیں، پی ٹی آئی نے وعدوں پر عمل کرنے کی کوشش کی حالانکہ رفتار سست تھی، ہم پی ٹی آئی کے اتحادی ہیں ان کے پابند نہیں ہیں،اپنا فیصلہ اپنے عوام کے مسائل سامنے رکھ کر کریں گے، ن لیگ ہم سے مستقبل کے حوالے سے بھی بات کررہی ہے، زبانی طور پر کہہ دینا کہ ہم نے تمام مطالبات مان لیے کافی نہیں ہے،ہم نے جو مطالبات رکھے ہیں جب تحریری شکل میں آئیں گے تو بات ہوسکے گی۔ عامر خان نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن کے ساتھ بات ہورہی ہے حتمی فیصلہ رابطہ کمیٹی میں ہوگا،ہم نے بڑے زخم کھائے ان کا مداوا کرنے کی یقین دہانی ہو اور عملدرآمد ہوتا نظر آئے تب ہی فیصلہ کریں گے، یہ پانچ روزہ ٹیسٹ ہے آخری گیند اور آخری وکٹ تک کھیلیں گے، حکومت جو کچھ کارکردگی دکھاسکتی تھی اس نے دکھائی ہے، ہمارے مطالبات میں کوئی عہدہ یا وزارت نہیں ہے،ایم کیو ایم نے اصولی طور پر بات کی ہے اصولوں پر مذاکرات کیے ہیں، مجھے تو حکومت ،اپوزیشن اور جمہوریت سب ہی خطرے میں نظر آرہی ہیں، چھبیس ستائیس مارچ کو دونوں اسلام آباد میں جمع ہورہی ہیں کوئی نئی صورتحال نہ بن جائے، بڑی سیاسی جماعتیں دانشمندی سے فیصلے کریں، عدم اعتماد کے طریقہ کار کو خوش اسلوبی سے آگے بڑھنے اور نتیجہ نکلنے دیں، اس کے بعد فیصلہ حکومت کیخلاف آئے یا اپوزیشن کیخلاف دونوں کو قبول کرنا چاہئے۔ ق لیگ کے رہنما کامل علی آغانے کہا کہ جلسوں سے مقبولیت کا معیار طے ہوسکتا تو بہت سی جماعتیں خود کو مقبول کہہ سکتی ہیں، حکومت سے متعلق یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہمیشہ دیر کردیتا ہوں،اتحادیوں خاص طور پر ق لیگ سے اتنی تاخیر سے رابطہ کیا جارہا ہے، حکومت یا وزیراعظم نے ق لیگ کے ساتھ کتنی ملاقاتیں کی ہیں، وزیراعظم نے صرف ایک ملاقات کی اور اس میں بھی عدم اعتماد کی بات نہیں کی،حکومت کے دوسرے اتحادیوں نے فیصلے کرلیے ہی، چودھری شجاعت اور پرویز الٰہی ہمیشہ کہتے ہیں فیصلہ کرنے سے پہلے سو بار سوچنا چاہئے۔ کامل علی آغا کا کہنا تھا کہ اگر کوئی بات ہوسکتی تھی تو وہ وزیرعظم کی ملاقات میں ہوسکتی تھی، تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ پارلیمنٹ میں ہونا ہے ، حکومت نے اپنا گھر درست کرنے کے بجائے انہوں نے اتنا وقت لیا کہ لوگ اپنے فیصلے کرنے پر مجبور ہوئے،راجہ ریاض بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس 27بندے ہوچکے ہیں، پی ٹی آئی سے ایم این ایز کی بڑی تعداد نکل چکی ہے، عمران خان نے اب جلسے شروع کردیئے تاکہ ثابت کرسکیں کہ مقبولیت بڑھ گئی ہے۔ کامل علی آغا نے کہا کہ حکومت کی مقبولیت کا فیصلہ 27مارچ کو ہوگا، دیکھنا ہوگا اپوزیشن کتنے بڑے جلسے کرتی ہے، حکومت اور اپوزیشن کے جلسے تحریک عدم اعتماد کا ازالہ نہیں کرسکتے، حکومت نے اتحادیوں اور اپنے اراکین پر توجہ ہی نہیں دی۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ کوئی بھی حکومت میں ہو تو بڑے جلسے کرسکتا ہے، حکومت اپنا کام چھوڑ کر جلسے شروع کردے تو ملک کون دیکھے گا، پی ٹی آئی شاید بڑے جلسے کرلے گی لیکن اسمبلی میں 172آدمی چاہئیں، عمران خان اتنے ہی مقبول ہیں تو میدان میں آجائیں اور الیکشن کروالیں، اپوزیشن کے پاس 172سے بہت زیادہ لوگ ہیں، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ یکم اپریل کو ہوسکتی ہے،ووٹنگ میں بہت دن باقی ہیں اتحادی اپنا فیصلہ کرلیں گے، اتحادیوں کے ساتھ مثبت بات چیت ہوئی وہاں سے بہتر فیصلہ آئے گا۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ق لیگ سے متعلق جو خبر چلی ہے اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے، ہم عدم اعتماد اقتدار کیلئے نہیں نظام کی بہتری کیلئے کررہے ہیں،وفاق میں ایک رکن پارلیمنٹ والی جماعت بھی اپنا وزیراعظم بنانا چاہتی ہے تو اس کیلئے بھی تیار ہیں، پنجاب میں کوئی عدم اعتماد ہوا تو اس کا فیصلہ بھی جوائنٹ اپوزیشن کرے گی، یہ باتیں کافی حد تک طے ہوگئی ہیں لیکن باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا، تحریک عدم اعتماد واپس لینے کی کوئی تجویز نہیں ہے، آئینی عمل کے ذریعہ حکومت کو گھر بھیجنے کی کوشش کررہے ہیں، حکومت سے جان چھڑانے کیلئے عوام کا دباؤ ہے، اسی دباؤ نے حکومت کے پاس موجود بیساکھیوں کو بھی ہٹادیا ہے۔سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ عمران خان اتحادیوں کو ہلکا لے رہے تھے مگر اب انہیں ان کی اہمیت کا اندازہ ہوا ہے، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے معاملات کافی حد تک طے ہوچکے ہیں، قومی اسمبلی میں حکومت کے 65سے زائد ارکان غائب تھے، پی ٹی آئی کے سات باغی اراکین قومی اسمبلی میں ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے، اسپیکر قومی اسمبلی اگر ووٹنگ کرواتے تو وہ اپوزیشن کے ساتھ شامل ہوجاتے، عمران خان اپنی مقبولیت پر جتنے نازاں ہوں لیکن معاملہ منتخب ایوان کا ہے، عمران خان ایوان میں اپنی اکثریت ثابت کریں گے تب ہی مسئلہ حل ہوگا۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ جن ارکان نے حکومت سے رابطہ کیا ہے یہ ان 13ارکان میں شامل نہیں جن کی سندھ ہاؤس میں رونمائی ہوئی تھی، ن لیگ کی پی ٹی آئی کے منحرف 19اراکین کی لسٹ میں سے دو ارکان خواجہ شیراز اور سمیع گیلانی کی حکومت سے ملاقاتیں ہوئی ہیں، اتوار کو کچھ پریس کانفرنسیں ہوں گی جس میں پتا چلے گا کہ 2018ء میں پنجاب اور مرکز میں عمران خان کی حکومت کیسے بنوائی گئی تھی، کچھ ایسی چیزیں بھی سامنے آنے والی ہے جس سے ہماری سیاست کی ساکھ کافی خراب ہوجائے گی۔ سینئر صحافی و اینکر پرسن شہزاد اقبال نے کہا کہ وزیراعظم کے ساتھ صحافیوں کی ملاقات آف دا ریکارڈ تھا، وزیراعظم کی باتوں سے لگا کہ ان کا ٹرمپ کارڈ دراصل ان کا مقبولیت کارڈ ہی ہے، وزیراعظم سے نمبرز گیم سے متعلق سوال ہوئے تو یہی محسوس ہوا کہ نمبرز گیم کا جواب بھی ان کی مقبولیت ہی ہے۔