کراچی(ٹی وی رپورٹ)رہنما ن لیگ احسن اقبال نے جیو نیوز کی خصوصی نشریات میں کہا ہے کہ خط کا ڈرامہ ایسا ہی ہے جیسے 35 پنکچرز کہہ کر گمراہ کیا گیا.
سینئر صحافی تجزیہ کار شہزاد اقبال نے کہا کہ وزیراعظم کا سرپرائز تو سامنے نہیں آیا لیکن انہوں نے کچھ اہم باتیں کی ہیں۔
سینئر صحافی تجزیہ کار شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ منحرف اراکین کا واپس آنا مشکل ہے.
سینئر صحافی و تجزیہ کار سلیم صافی نے کہا کہ کوئی جماعت ہائی مورل گرائونڈ پر نہیں ہے.
سینئر صحافی و تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے کہا کہ جلسے میں استعفی رکھتے اور کہتے میں جارہا ہوں، سینئر صحافی و تجزیہ کار منیب فاروق نے کہا کہ تیار کردہ حکومت کی قلعی کھل رہی ہے.
سینئر صحافی و تجزیہ کار محمل سرفراز نے کہا کہ سرپرائم بالکل نظر نہیں آیا۔
تفصیلات کے مطابق رہنما ن لیگ احسن اقبال نے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بہت بڑا تھیٹر تھا یہ جو خط کا ڈرامہ کیا گیا ہے یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے خان صاحب نے دو سال قوم کو 35پنکچرز کہہ کر گمراہ کیا۔
کل کو پتہ چلے گا کہ راہ چلتے بندے نے ان کو فوٹو کاپی پکڑا دی تھی کسی خط کی انہوں نے اسے اپنی حکومت کے خلاف اور دھمکیوں بھرا خط قرار دے کرلہرا دیا۔
اگر وزیراعظم کو پتہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی کوئی سازش ہورہی ہے تو یہ ان کے حلف کا تقاضا ہے کہ وہ تمام ثبوت ایک ریفرنس کے طور پر سپریم کورٹ میں پیش کریں اور ان کرداروں کو بے نقاب کریں۔ جو کسی بیرونی سازش کے تحت ان کی حکومت کو عدم استحکام کے ذریعے ڈسٹرب کررہے ہیں لیکن یہ سب ناٹک ہے جو وہ کررہے ہیں۔
انہوں نے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے ایم این ایز کو کہا کہ آپ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہیں اور ہمارا ساتھ دیں اور تحریک عدم استحکام کی مخالفت کریں۔
گویا کہ اپوزیشن کا کوئی ایم این اے حکومت کا ساتھ دے تو وہ ضمیر کی آواز ہے اور جو حکومتی ایم این اے حکومتی پالیسی سے نالاں ہوکر تحریک عدم استحکام کی حمایت کریں گے وہ ضمیر فروش ہیں۔
یہ منطق عمران خان جیسا کوئی فلسفی ہی دے سکتا ہے۔ رہنما ن لیگ احسن اقبال نے کہا کہ انہیں شکست نظر آرہی ہے تو آج انہوں نے صرف ایک شہید بننے کی کوشش کی ہے۔
توقع یہ تھی کہ آج وہ بتاتے کہ ایک کروڑ میں سے ہم80لاکھ نوکریاں دے چکے ہیں 50 لاکھ میں سے 40لاکھ گھر بنا کر دے چکے ہیں۔ بجلی اور گیس کے بل سستے کردیئے ہیں۔
قطری خط اور جیب کے خط کا کوئی موازنہ نہیں ہے البتہ 35پنکچرز کے ساتھ اس کا موازنہ کرسکتے ہیں۔
بھٹو صاحب کی آج انہوں نے تعریف کی مجھے یقین ہے کہ دو سال بعد جب وہ تقریر کریں گے تو وہ کہیں گے کہ نواز شریف جیسا بہادر لیڈر جس نے امریکا کے صدر کے پانچ فون کے باوجود ایٹمی دھماکے کردیئے۔
سینئر صحافی تجزیہ کار شاہزیب خانزادہ نے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جلسے کا کرائوڈ تو اچھا تھا مگر حکومت کے دعوئوں کے مطابق نہیں تھا۔ وزیراعظم عمران خان کی پوری تاریخ ہے کہ وہ الزام لگا دیتے ہیں اور بعد میں کہہ دیتے ہیں کہ سیاسی بیانیہ تھا۔
آج جب انہوں نے خط نکالا اور واپس رکھ لیا تو بہتر تھا کہ آگے بھی جاتے مگر انہوں نے اس کا ذکر نہیں کیا کون سا ایسا ملک ہے جو پاکستان کو لکھ کر دھمکی دے رہا ہے۔
پاکستان ایسا کیا کام کررہا ہے یا عمران خان کی حکومت ایسا کیا کام کررہی ہے جس کیلئے انہیں کسی ملک کو لکھ کر دھمکی دینا پڑ رہی ہے۔
دوسرے ممالک آئی ایم ایف کے ذریعے یا دوسری چیزوں کے ذریعے وزیراعظم کو پریشرائز نہیں کرسکتے تھے اور انہیں خط لکھ کر ایسا کرنے کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ آج کی تقریر سے منحرف اراکین اور اتحادیوں پر دبائو پڑے گا۔
اپنے ووٹر سپورٹرز کو تو عمران خان انرجائز کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اس سے منحرف اراکین واپس آجائیں گے یہ بڑا مشکل لگتا ہے۔ اگر ملک کا وزیراعظم ایک خط کے بارے میں بات کررہا ہے تو اس کی ایک اہمیت ہے۔
آج اگر وہ کہہ رہے ہیں کہ میں ملک کے مفاد میں نہیں بتا رہا جب آپ نے یہ بتا دیا کہ آپ کو ایک لیٹر لکھا گیا ہے تو جس نے خط لکھا ہے قوم کو ہی آپ نے نہیں بتایا۔
سینئر صحافی تجزیہ کار سلیم صافی نے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ لیٹر بھی اسی طرح جھوٹ ہے جس طرح وہ absolutely not کا جھوٹ بول رہے ہیں اور یہ میں پوری ذمہ داری کے ساتھ کہہ رہا ہوں۔
ان کا اشارہ امریکا یا مغرب کے باقی ممالک کی طرف ہوگا مجھے یہ بتائیں کہ عمران خان نے ان کا کیا بگاڑا ہے۔ افغانستان کے حوالے سے انہیں کوئی شکایت تھی تو ہماری اسٹیبلشمنٹ سے تھی۔
روس جانا اگر گناہ تھا تو روس کا پہلا دورہ آصف زرداری نے کیا تھا۔ انہیں پاکستان کے مفادات کا خیال ہوتا یا وہ اس کی حساسیت کو سمجھتے تو وہ پارلیمنٹ کے فلور پر کھڑے ہوکر اسامہ بن لادن کو شہید نہ کہتے۔
امریکا نے کوئی دھمکی دی ہے نہ اڈے مانگے ہیں عمران خان کی حکومت سے اگر اس وقت کوئی سب سے زیادہ نالاں ہے تو وہ چین ہے۔ جن کے بچے گولڈ اسمتھ کے گھر بیٹھے ہوں ان سے مغرب ناراض ہوگا۔
اخلاقی طور پر دیکھیں تو کوئی بھی جماعت ہائی مورل گرائونڈ پر نہیں کھڑی ہے یہ پاور سیاست ہورہی ہے۔ کوئی ایک کام ایسا بتا دیا جائے جو انہوں نے امریکی مفاد کے خلاف کیا ہو۔
شاہ محمود قریشی اور ان کے دفتر خارجہ کی اہمیت اس وقت ڈاک خانہ سے زیادہ نہیں ہے۔
ان کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اور ان کا وزیر خارجہ کہہ رہا ہے کہ ہم سے اڈے نہیں مانگے گئے۔ جب وزیراعظم اپنے وزرا کی تردید کرکے نیشنل سیکورٹی اداروں کی تردید کرکے اس حوالے سے اتنے جھوٹ بول سکتے ہیں تو اس خط کے حوالے سے کیوں نہیں بولیں گے۔
سینئر صحافی تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تقریر بہت لمبی تھی اگر مختصر تقریر کرلیتے وہ ساری چیزیں نہ بتاتے جو ساڑھے تین سال سے ہم سنتے آئے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اب عمران خان کے پاس بہت کم آپشنز رہ گئے ہیں۔
جلسے میں اپنا استعفیٰ رکھتے اور کہتے کہ میں جارہا ہوں۔ لندن میں جو ملاقاتیں ہورہی ہیں عمران خان کو یہ بتانا تھا۔ مغرب تو یقینا خوش نہیں ہوا ہوگا جب یہ روس گئے ہوں گے اس وقت نہیں جانا چاہئے تھا کچھ نہ کچھ تو انیس بیس ہوگا خط انہوں نے دیا ایسے ہی بلف گیم تو نہیں ہوتا۔
سینئر صحافی تجزیہ کار منیب فاروق نے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی حکومت کی جو اصل طاقت تھی وہ آج ان کے پاس نہیں ہے جو کچھ ہورہا ہے وہ سیاست ہے۔
یہ ایک تیار کردہ حکومت تھی جس کی قلعی اب کھل رہی ہے۔ سینئر صحافی تجزیہ کار محمل سرفراز نے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سرپرائز بالکل نظر نہیں آیا۔
اتحادیوں کو اپنا مائنڈ تبدیل کرنا تھا اتنے زیادہ لوگ تھے جم غفیر کی وجہ سے ان پر بہت دبائو آنا تھا۔ جتنی آج وزیراعظم نے بھٹو کی تعریف کی پی ٹی آئی ہمیشہ سے اس نعرے پر تنقید کرتی ہے کہ ہر گھر سے بھٹو نکلے گا۔