اسلام آباد(نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی آئینی درخواست اور آئین کے آرٹیکل 63اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ پارٹی سے انحراف سیاسی برائیوں میں سب سے بڑی برائی ہے اور عدالت نے یہ تعین کرنا ہے کہ کیا انحراف کے بعد ایک شخص دوبارہ عوامی نمائندے کے طور پرمنتخب ہونے کا حق رکھتا ہے یا نہیں؟
عدالت نے سوال اٹھایا کہ کیا تاحیات نااہلی کیلئے پارٹی سے انحراف کافی ہے؟ عدالت نے آبزرویشن دی کہ آرٹیکل 63اے میں عوامی عہدہ کیلئے تاحیات نااہلیت کا کوئی ذکر نہیں ہے ،تاحیات نااہلیت صرف جھوٹا بیان حلفی جمع کروانے پر ہی ہوتی ہے۔
عدالت کے سوالات پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ دنیا کے کسی ملک میں بھی عوامی نمائندوں کی تاحیات نااہلیت بھی نہیں ہے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریما رکس دیئے کہ سیاسی استحکام کیلئے پارٹی ڈسپلن کو قائم رکھنا ضروری ہے لیکن ہم کس بنیاد پر فیصلہ کریں کہ پارٹی سے انحراف آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کے برابر ہے، اگرانحراف کوبہت برا اقدام سمجھا جائے کہ اسکی سزا نااہلیت ہی ہونی چاہیے، تو بھی یہ ہمارا کام نہیں ہے ، ہم مقننہ نہیں ہیں،ہم تو صرف قانون کی تشریح کرسکتے ہیں، آئین کو نئے سرے سے نہیں لکھ سکتے ۔فاضل چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا یہ بحث آئین بنانے والوں کی نیت جان سکتی ہے؟ہم ایک کمزور جمہوریت پر حکمرانی کا اپنا طریقہ مسلط نہیں کرسکتے ہیں ۔
جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل نے ریمارکس دیئے کہ جہاں ضروری تھاوہاں آئین میں نااہلیت کا لفظ استعمال ہوا ہے لیکن آرٹیکل 63میں نااہلیت کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے ،صرف نشست سے ہاتھ دھونے کی بات کی گئی ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا دنیا کے کسی ملک میں بھی پارٹی سے انحراف کی بنیاد پر نااہلیت ہوتی ہے؟فاضل جج کا کہنا تھا کہ ہم قانون نہیں بنا سکتے قانون بنانا مقننہ کاکام ہے،قانون بنانے والوں نے پارٹی سے انحراف پر نشست سے محروم ہونے کی سزا دی ہے۔
انہوں نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا شاید آپ نشست سے محرومی کو معمولی سزا سمجھتے ہوں لیکن یہ معمولی سزا نہیں ہے۔
بلوچستان جاکر دیکھئے کہ الیکشن لڑنا کتنا مشکل کام ہے لوگ قتل اور اغواتک ہوجاتے ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ایک رکن اسمبلی کوڈی سیٹ ہونے کے بعد کس بنیاد پر تاحیات نااہل ہونا چاہیے؟ پارلیمنٹ نااہلی کی مدت 2 یا 5 سال تک مقرر کرسکتی ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا ایک شخص کو تاحیات نااہل کرنے کیلئے انحراف کی بنیاد کافی ہے؟ عدالت نے استفسار کیا آئین میں ڈی سیٹ کی نااہلی کہاں ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ قانون میں ترمیم کرکے نااہلیت کی مدت کیوں مقرر نہیں کررہی ہے؟ انکا کہنا تھا کہ پارٹی سے انحراف پر ایک رکن ڈی سیٹ تو ہوگا، لیکن کیا تاحیات نااہلی ہونی چاہیے؟
فاضل جج نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جو تکلیف سیاسی جماعتیں نہیں کرنا چاہتیں وہ آپ سپریم کورٹ سے کرانا چاہتے ہیں۔
منگل کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لاجر بینچ نے ریفرنس پر سماعت کی تو اٹارنی جنرل نے دلائل دینا شروع کیے تو چیف جسٹس نے کہا کہ آج آپ سے سوالات نہیں کرینگے۔
چیف جسٹس نے سندھ ہائوس پر حملے کے معاملے میں کارروائی کے بارے میں استفسار کیا کہ کیا آئی جی کی جانب سے رپورٹ جمع کرادی گئی ہے؟ تو ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی نے بتایا کہ سندھ ہائوس حملہ کیس کی ایف آئی آر میں دو نئی دفعات ڈال کر متعلقہ مجسٹریٹ سے ملزمان کے وارنٹ گرفتاری حاصل کئے جارہے ہیں، وارنٹ ملنے کے بعد دونوں اراکین اسمبلی سمیت 15ملزمان گرفتار ہوجائینگے۔