• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گئے برسوں کی بات ہے پی ٹی وی نے ایک ڈرامہ سریل ’’رگوں میں اندھیرا‘‘ پیش کیا ، کم عمری کی وجہ سے اس نام کے معنوں سے بہت نابلد تھے ۔گھر کے بڑوں نے ہمیں بتایا کہ ’’رگوں میں اندھیرا‘‘ جرائم، منشیات اورنشہ آور ڈرگز سے متعلق ڈرامہ ہے جس میں دکھایا جاتا ہے کہ نوجوان نسل کو کس طرح سے منشیات میں مبتلا کر کےان کی رگوں میں اندھیرا اتارا جارہا ہے ، انہیں منشیات کا عادی بنا کر کیسے ان کا مستقبل تاریک کیا جا رہا ہے، تاکہ ہر پل ہر وقت نشے میں ڈوبے رہیں اور کسی کام کے قابل نہ رہ سکیں، اب جبکہ اس ڈرامے کو دیکھے کئی سال بیت چکے ہیں تو معلوم ہوا کہ یہ ’’رگوں میں اندھیرا‘‘ اتارنے والا مسئلہ تو جوں کاتوں برقرار ہے ۔ 

منشیات کے سودا گر نوجوان نسل کی صلاحیتوں کے قاتل ہیں اُن کی رگو ں میں اندھیرا اتار کرلاکھوں نوجوانوں کا مستقبل تباہ اور برباد کر رہے ہیں ۔ مسائل میں گھرے نوجوانوں کو یہ کہہ کرکہ یہ مسائل کے حل کی دوا ہے،نشے کی لت کا شکار بنادیا جاتا ہے۔ جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں کھلونا بننے والوں میں زیادہ تر21 سال سے 30 سال کے نوجوان ہیں۔

ہمارے ملنے والوں کی ایک فیملی میں اُن کے پانچ لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں، ان میں سب سے زیادہ پیارا اور خوبصورت لڑکا جو غلط صحبت میں کا شکار ہوکر چرس بھری سگریٹ پینے کا عادی بن گیا ،جس نے اس کی صحت اور جوانی چھین لی وہ کسی کام کا نہ رہا نہ ہی پڑھنے میں اس کا دل لگتا اور نہ ہی گھر کے کاموں میں ، ماں سمجھاتی رہ جاتی، مگر وہ ایک نہیں سنتا تھا۔ 

چرس بھرے سگریٹ کی خاطر پہلے وہ گھر میں چوری چکاری کرنے لگا پھر محلے کے گھروں میں ہاتھ صاف کرنے لگا ، اس کے بعد منشیات فراہم کرنے والوں نے اسے جیب کترا بنادیا ، اسے اس قدر نشے کا عادی بنادیا کہ وہ نشہ پورا کرنے کے لئے ان کے اشاروں پر ناچنے لگا ، انہوں نے اسے غلط راہوں کی جانب گامزن کردیا ، پھر ایک وقت ایسا آیا کہ چرس کے نشے میں چُور جگہ جگہ کونوں کھدروں میں پڑا ہوا ملتا ،پھر ایک دن اس کی اکڑی ہوئی لاش ملی۔ گھر میں کہرام مچ گیا محلے میں افسردگی کی لہر دوڑگئی آخر کار منشیات کا استعمال اسے لے ڈوبا، منشیات فروشوں کی جیت ہوئی انہیں کوئی پکڑنے والا نہیں۔

آج کل منشیات کا استعمال ہمارے نوجوانوں میں بہت تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے ۔ اگر بات کریں کراچی جیسے بڑے شہر کی تو اکثر فلائی اوورز کے نیچے، تین ہٹی کے علاقے، صدر ، لیاری ندی کے کناروں پر اور بعض علاقوں کے میدانوں میں نوجوان سر پر چادر اوڑھے دھواں پھونکتے ہوئے نظر آئیں گے۔ ان کے کپڑے میلے کچیلے اور بال مٹی اور دھول سے اٹے ہوتے ہیں۔ شہر کے پوش علاقوں میں شیشہ کیفے اور اعلیٰ درس گاہوں کے ذریعے سے بھی نوجوانوں کو نشہ کا عادی بنایا جارہا ہے، ان میں فروغ پانے والی منشیات میں گٹکہ اور ماوا ، شیشہ ، چرس ، ہیروئن، نیکوٹین ، کرسٹل، شراب وغیرہ شامل ہیں جو کہ کھلے عام فروخت ہورہا ہیں۔ 

ضلعی انتظامیہ ان تمام مافیا کے سامنے بے بس دکھائی دے رہی ہے اور کسی بھی قسم کے اقدام اٹھانے سے گریزاں ہیں، آنکھیں بند کررکھی ہیں۔ نشے کے اس رجحان سے جہاں نوجوانوں کی صحت پر انتہائی مہلک اثرات پڑرہے ہیں، وہیں ان کی پڑھنے لکھنے اور کام کرنے کی صلاحیت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ منشیات کے استعمال کے باعث عموماً دیکھا گیا ہے کہ طلبہ کی ذہنی صلاحتیں بالخصوص یادداشت بہت زیادہ متاثر ہورہی ہے۔نئی نسل اپنے تابناک مستقبل سے بے پرواہ ہوکر تیزگامی کے ساتھ اس زہر کو قند سمجھ رہی ہے۔

اکثر نو جوان، والدین کی غفلت اور ان کے سرد رویہ کی وجہ سے نشے کی لت کا شکار ہو جاتے ہیں اور بعض کو غلط صحبت کا اثر لے ڈوبتا ہے،بعض نوجوان مسائل سے چشم پوشی اور حقیقت سے فرار حاصل کرنے کے لۓ بھی نشہ کا سہارا لیتے ہیں۔ بعض نوجوان فیشن کے طور پر سگریٹ نوشی یا دیگر نشہ آور اشیا ء کا استعمال کرتے ہیں، پھر یہ شوق وقت کے ساتھ ساتھ ضرورت کی شکل اختیار کرجاتا ہے اوراس طرح وہ مکمل طور پر نشے کاعادی بن جاتے ہیں۔ نشہ جسم کے ساتھ سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت کو سلب کر دیتا ہے۔ جس کی خاطر وہ ہر حد سے گزر جاتے ہیں۔ کسی قوم کو اگر شکست دینی ہے کمزور بنانا ہے تو اس کے نوجوانوں کو منشیات کا عادی بنادیا جائے۔ سماج دشمن عناصر قوم کےقیمتی سرمائےکو منشیات کی دلدل میں دھنساکرا پنی جیبیں بھر رہے ہیں۔

کوکین (Cocaine) اور خطرناک ترین آئیس (Crystal) ، (Methampitetamime) کا استعمال مالی لحاظ سےاونچے طبقے میں زیادہ ہے۔ ایسے گھرانوں میں پیدا ہونے والے بچوں کو ماں باپ ضرورت سے زیادہ آسائشیں دے کر انہیں اتنا آرام پسند بنا دیتے ہیں کہ یہ زندگی کی تلخیاں برداشت کرنے کے قابل ہی نہیں رہتے اور جلد ہی ہمت ہار دیتے ہیں اور خود کو نشے میں گم کر کے اس مشکل سے فرار حاصل کر لیتے ہیں، دھڑلے سے آئس کے نشہ پر مبنی حقہ نوشی کرتے نظر آتے ہیں۔

نئی نسل میں تیزی سے فروغ پانے والا نشہ کرسٹل میتھ جو ایک تباہ کن ہتھیار ہے ،اس کا شکار عموماً نجی تعلیمی ادارے اور امیر گھرانوں کے نوجوان بن رہے ہیں۔ کراچی میں پوش علاقوں کلفٹن ڈی ایچ اے اور گلشن اقبال کے مختلف علاقوں میں چائے خانوں میں خفیہ طور پہ حقہ نوشی کے ذریعے آئیس کا نشہ کروایا جا رہا ہے۔ یہ زہر جس تیزی کے ساتھ نئی نسل میں منتقل ہو رہا ہے یہ لمحہ فکریہ ہے ۔

اہم امر یہ ہے کہ کس طرح نوجوان نسل کو نشے کے لت سے بچایا جائے اور انہیں دیگر سرگرمیوں میں مصروف کیا جائے، سب سے پہلے ضروری ہے کہ آگاہی پھیلاؤ مہم زیادہ سے زیادہ کئے جائیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر اس مہم کو پروموٹ کیا جائے۔آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے، تاکہ والدین کو علامات کے بارے میں مکمل جان کاری ہو ۔

جب تک منشیات کے استعمال کے کو رواج اور بڑھا وادینے والے اسباب و محرکات کا خاتمہ نہیں کیا جائےگا،اس کے سد باب کی کوشش نہیں کی جائے گی اس وقت تک اس مسئلے کو کنڑول نہیں کیا جا سکتا ۔ زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والےذمہ داران اس کے سد باب کے لیے آگے آئیں اگر ارباب اختیار اپنی قوم کے ساتھ مخلص ہیں تو اس بات پر توجہ مرکوز کریں کہ یہ منشیات کہاں سے آرہی ہے اور نوجوانوں میں کیسے سپلائی کی جا رہی ہے ، ان عناصر کا سر سختی سے کچل دیں جو نسلِ نو میں منشیات کے زہر کو عام کررہے ہیں جو ان کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں۔

متوجہ ہوں!

قارئین کرام آپ نے صفحۂ ’’نوجوان‘‘ پڑھا، آپ کو کیسا لگا؟ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضاعات پر لکھنا چاہتے ہیں، تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں ضرور بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کر کے شائع کریں گے۔

نوجوانوں کے حوالے سے منعقدہ تقریبات کا احوال اور خبر نامہ کے حوالے سے ایک نیا سلسلہ شروع کررہے ہیں، آپ بھی اس کا حصّہ بن سکتے ہیں اپنے ادارے میں ہونے والی تقریبات کا مختصر احوال بمعہ تصاویر کے ہمیں ارسال کریں اور پھر صفحہ نوجوان پر ملاحظہ کریں۔

ہمارا پتا ہے:

انچارج صفحہ ’’نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ،

میگزین سیکشن،اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ کراچی