کراچی (ٹی وی رپورٹ ) قومی اسمبلی تحلیل کئے جانے اور ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے تحریک عدم اعتماد مسترد کئے جانے کے حوالے سےسپریم کورٹ میں موجود کیس کے حوالے سے آئینی و قانونی ماہرین نے کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کو فیصلے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے ، تاخیر سے فائدہ حکومتی موقف کو ہی ہوگا ، ماہر قانون عرفان قادر کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کسی بھی طرح تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کو نہیں روک سکتی ،ماہر قانون سلمان اکرم راجہ کا کہنا ہے کہ اس وقت عدالت کے سامنے صرف یہی ہے کہ جب عدم اعتماد منظور ہوگئی تھی ووٹنگ کے لیے وہ دن مقرر تھا تو کیا یہ ڈپٹی اسپیکر سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت ایک لکھا ہوا آرڈر لے کر آئے ایوان میں ، فواد چوہدری صاحب نے دو منٹ کوئی بات کی آرٹیکل 5 ہوا میں لہرایا اور نکال کر پڑھ دیا اس میں نام بھی اسد قیصر صاحب کا لکھا ہوا تھا تو یہ جو سب کچھ ہوا یہ ہی عدالت کے سامنے زیر غور ہے، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون نے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس ملک کی تاریخ لکھنی ہے ، آپ نے آئینی بحران سے نکالنا ہے ، گر آج ہماری سپریم کورٹ سامنے نہیں آئی قانون او ر آئین کو بحال کرنے کے لئے تو کل ہم پھر اسٹیبلشمنٹ کو الزام نہیں دے سکتے ۔ تفصیلات کے مطابق آئینی و قانونی ماہر عرفان قادر نے ایک انٹرویو کے دوران کہا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ سب کے دلائل سننے کیلئے ایک دن سے زیادہ کی ضرورت نہیں ، اس میں ایک ہی پوائنٹ ہے اور وہ بڑا سادہ ہے کہ کوئی بھی ہو خواہ اسپیکر ہوخواہ صدر پاکستان ہو یا وزیر اعظم ہو اگر وہ غیر آئینی اقدام کرتے ہیں تو کیا سپریم کورٹ کو اختیار ہے،سوال یہی ہے اگر اسپیکر کافیصلہ غیر آئینی ہو تو کیا اس میں کورٹ جاسکتی ہے کہ نہیں تو اس سے پہلے اسپیکر نے تو ایک دفعہ آئینی فیصلہ دیا تھا صحیح فیصلہ دیا تھا گیلانی صاحب کے زمانے میں اور انہوں نے کہا تھا گیلانی صاحب نااہل نہیں ہوئے تو پھر بھی judicial activismمیں جا کر کورٹ نے اس کو بھی غیر آئینی قرار دیدیا تھا ۔جسٹس مندو خیل کی جانب سے اسپیکر کی رولنگ سے متعلق ریمارکس پر عرفان قاد نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں جسٹس مندو خیل نے بالکل ٹھیک بات کی ہے، اب تک سب سے زیادہ اچھے commentsمیں نے سنے ہیں وہ جسٹس مندو خیل کے ہیں ،وہ بڑے کلیئر کٹ بات کررہے ہیں اور اس میں جتنی بھی تاخیر ہوگی تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے حکومتی موقف کو ventilatorپر ڈالا ہوا ہے یہ تب تک delayکا فائدہ انہی کو ہوگا اور جس وقت یہ سپریم کورٹ فیصلہ کرے گی وہ بالکل آئین کے مطابق ان کو کرنا ہوگا ،سپریم کورٹ کے پاس کوئی صوابدید نہیں ہے کہ کسی طرح سے ایسا فیصلہ کردے جو آئین کے بر عکس ہو اور اس لئے سپریم کورٹ کسی طرح سے بھی وہ اس ووٹ کو نہیں روک سکتی جو no confidence کا vote tableہوچکا ہے۔عرفان قادرنے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سابق وزیراعظم جونیجو کے کیس میں یہ ہوا تھا کہ اسمبلی تحلیل کرنے کو سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دیا تھا کہ صدر اسمبلیاں تحلیل نہیں کر سکتے ۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے کہا تھا consequencesاس لئے ہم undoنہیں کریں گے کیوں کہ پورا ملک الیکشن کی تیاری کررہا ہے ،یہاں پر بھی اگر سپریم کورٹ اسپیکر کے آرڈر کو ایک طرف کرتی ہے تو پھر اپوزیشن کا بھی موقف لینا پڑے گا اور حکومت کا بھی لینا پڑے گا اور اگر سارےاتفاق کرتے ہیں تو اس صورت میں متبادل پر غور ہوسکتا ہے ورنہ middle course adoptکرنے کی jurisdictionسپریم کورٹ کو نہیں ہے۔ماہر قانون سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میرا نہیں خیا ل اپوزیشن ی چاہتی ہے دیکھیں معاملہ یہ ہی ہے کہ جو رولنگ ڈپٹی اسپیکر نے دی وہ ان کے دائرہ اختیار میں تھی یا نہیں تھی کیا انہوں نے آئین سے تجاوز کیا آئین کے برخلاف کوئی عمل کیا ، معاملہ یہی ہے اس حوالے سے اسپیکر ، ڈپٹی اسپیکر کو تحفظ حاصل ہے آئین کے آرٹیکل 69 کا یا نہیں اس دوران بہت سی باتیں ہوتی ہیں چونکہ الزام لگا ہے اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ ہم حاضر ہیں ہمارے حوالے سے کسی نے کوئی تفتیش کرنی ہے تو وہ کرلے ۔ لیکن یہ معاملہ عدالت کے سامنے نہیں ۔دیکھیں عبوری نظام میں وزیر اعظم اور لیڈر آف دی اپوزیشن ہیں انہوں نے اتفاق کرنا ہوتا ہے عبوری وزیر اعظم کے لیے اور اگر وہ اتفاق نہ کرسکیں تو معاملہ آٹھ رکنی کمیٹی کے پاس جاتا ہے جس میںچار حکومتی ارکان ہوتے ہیں چار اپوزیشن کے ہوتے ہیں ان کو تین دن دیئے گئے ہیں انہوں نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے ،ان ناموں سے اگر وہ بھی نا کرسکیں تو پھر نام بیج دیئے جاتے ہیں الیکشن کمیشن کو الیکشن کمیشن نے دو دنوں میں سے ایک نام کو منتخب کر کے عبوری وزیر اعظم لگانا ہوتا ہے ،دیکھیں اس وقت تو وہ رولنگ کالعدم قرار نہیں دی لہذا اس رولنگ کے نتیجے میں وہ بھی قائم ہے اور تحلیل کے بعد تین دن کا عرصہ بھی مکمل ہوجائے گا اس لئے یہ ایک ایمرجنسی کی صورتحا ل ہوگئی کی اگر بالآخر سپریم کورٹ اس رولنگ کو قائم رکھتی ہے تو پھر ان تین دنوں میں لیڈر آف دی اپوزیشن نے اپنے نام دینے ہیں، اب ان کے لئے مسئلہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں رولنگ کالعدم ہے اور اس بنیاد میں جو اسمبلیاں تحیلیل ہوئی ہیں وہ بھی کالعدم ہیں لہذا وہ تما م عمل کو غیر آئینی عبوری حکومت کا عمل ہے اس لئے وہ اس کا حصہ نہیں بننا نہیں چاہتے ۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون نے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس ملک کی تاریخ لکھنی ہے ، آپ نے آئینی بحران سے نکالنا ہے اس ملک کو، اس ملک میں جو پہلے آئینی بحران آتا رہا وہ اتنی اچھی بات نہیں ہے لیکن میں ایک گزارش کروں آپ سے بڑے محتاط لفظوں میں میرا کوئی پرا نا خان صاحب سے اختلاف نہیں ہے سیاسی طور پر نہ کسی دوسری جماعت کا ہوں میں صرف یہ چاہتا ہوں کی اس ملک میں آئین او ر قانون کی بالا دستی اور آئین کی پاسداری ہونی چاہیے ، میرے نکتہ نظر کے مطابق یہ آئین کی abrogation ہیں اور سپریم کورٹ پاکستان اگر آج abrogate نہیں ہو، جیسے آپ نے تاریخ میں دیکھا ہے۔ احسن بھون نے ایک اور سوال کے جواب میں بتایا کہ تکنیکی معاملات ہوتے ہیں کورٹ کا یہ مجاز ہوتا ہے وہ کوشش کرتی ہیں تمام فریقین کو سنیں لیکن میں یہ سمجھتا ہوں ایسے کیسز میں اتنی تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔