یوں تو پچھلے کئی ماہ سے یوکرائن کے بارے میں بہت کچھ لکھا جارہا ہے مگر آپ کا زیادہ تر رجحان سیاسی یا فوجی پہلو کی طرف رہا ہے۔ اس قضیے کا ایک معاشی رخ بھی ہے جس پر ایک نظر ڈالی جاسکتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک اصطلاح جو استعمال کی جارہی ہے اُسے پیٹرو ڈالر یا تیل کے ڈالر کہا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح تقریباً نصف صدی قبل وجود میں آئی تھی۔ اب پچاس سال بعد کہا جارہا ہے کہ ممکن ہے کہ اگر تیل پیدا کرنے والے کچھ ممالک تیل کی خرید وفروخت ڈالر کے علاوہ دیگر کرنسیوں جیسے روسی روبل یا چینی یوآن میں کرنا شروع کردیں تو یہ پیٹرو ڈالر کے دور کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے۔
دراصل پیٹرو ڈالر اُن امریکی ڈالروں کو کہا جاتا ہے جو تیل برآمد کرنے والے ملکوں کو ادا کیے جاتے ہیں۔ اوپیک ( OPEC ) یعنی تیل برآمد کرنے والے ملکوں کی بین الاقوامی تنظیم بنیادی طور پر امریکی ڈالر میں ہی رقم وصول کرتے ہیں جو پیٹرو ڈالر کہلاتے ہیں۔ اوپیک کی تنظیم 1960 میں پانچ ممالک نے تشکیل دی تھی جو ایران, عراق, کویت, سعودی عرب اور ونیزویلا تھے۔ یعنی پانچ بانی ارکان میں سے چار مسلم تھے اور اب اوپیک ارکان کی تعداد 17 ہے، کیوں کہ 1961 میں قطر شامل ہوا اور 1962 میں انڈونیشیا اور لیبیا, 1973 کے تیل کے بحران تک اوپیک ارکان کی تعداد بارہ تک پہنچ گئی تھی۔
اگر تیل پیدا کرنے والے کچھ ممالک تیل کی خرید و فروخت ڈالر کے علاوہ دیگر کرنسیوں میں کرنا شروع کردیں تو یہ پیٹرو ڈالر کے دور کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے
جس کے بعد امریکا کے کچھ ممالک کو مجبور یا قائل کرلیا گیا کہ تیل کے لیے تمام لین دین ڈالر میں کی جائے جس کے لیے پیٹرو ڈالر سامنے آئے۔ اس کے بعد سے اب تک ڈالر تیل کے کاروبار میں ترجیح ترجیحی کرنسی رہی ہے۔ گزشتہ چند سال میں چین اور روس نے کوشش کی ہے کہ پیٹرو ڈالر کی برتری ختم کردی جائے لیکن اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔ اب یوکرائن پر روسی حملے کے بعد ایک پھر یہ بات موضوع بحث بن رہی ہے، گو کہ اب تک کسی بھی ملک نے اس ضمن میں کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا۔ اس وقت دنیا بھر تیل اور گیس کے کاروبار کا حجم کھرب ڈالر سے زیادہ ہے۔
تیل برآمد کرنے والے ممالک میں روس کا درجہ سعودی عرب کے بعد دوسرا ہے، جب کہ عراق اور امریکا دوسرا اور تیسرے نمبر پر آتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چین اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ تیل درآمد کرتا ہے جب کہ استعمال کے لحاظ سے امریکا کا دنیا میں پہلا نمبر ہے۔ اب یوکرائن کے بحران کے باعث تیل کی قیمتیں عالمی منڈی میں آٹھ سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں اور 2022 کے آخر تک تیل کا عالمی کاروبار ڈھائی ارب ڈالر تک پہنچنے کا تخمینہ ہے اور ظاہر ہے امریکا اس کاروبار میں اپنے ڈالر کی اہمیت مستحکم رکھنے کی پوری کوشش کرے گا۔
اب تک تاریخی طور پر امریکی ڈالر دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں زیادہ مستحکم رہا ہے اور اس کی مقبولیت کا راز یہ بھی ہے کہ یہ دنیا میں ہر جگہ چھوٹے بازار سے بڑی منڈیوں تک آسانی سے قبول کرلیا جاتا ہے۔ کرنا کا کاروبار کرنے والے بھی سب سے زیادہ ڈالر پر انحصار کرتے ہیں اور دیگر کرنسیوں کو آسانی سے قبول نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر آپ کراچی یا لاھور کے بازار میں چینی یوآن یا روسی روبل لے کر نکلیں تو شاید ہی کوئی دکاندار انہیں قبول کرے البتہ ڈالر کو ہاتھوں ہاتھ لے لیا جائے گا۔
اس سلسلے میں امریکا کی حکومتوں نے بتدریج کام کیا ہے۔ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد جب عرب ممالک نے تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تو مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں بہت بڑھ گئیں تھیں جس کے بعد 1974 میں امریکی صدر نکسن نے سعودی عرب کے ساتھ ایک معاہدہ کیا اور طے پایا کہ سعودی عرب کو تیل کی برآمدات ڈالر میں ہی ہوں گی، جس کے بعد سعودی عرب نے اپنی رقوم امریکی ٹریژری بانڈ میں لگائی۔ ٹریژری بانڈ جنہیں مختصراً ٹی بانڈ ( T - BOND ) کہا جاتا ہے حکومت کے قرضوں کی سیکورٹی یا ضمانت ہوتے ہیں جو تقریباً بیس سال بعد میچور ہوتے ہیں یعنی اپنی منافع بخش عمر کو پہنچتے ہیں۔
اس کے بعد کئی ممالک نے یہ ہی راستہ اپنایا اور پیٹرو ڈالر کی قدر بڑھتی گئی۔ اب دیگر ممالک کو تیل خریدنے کے لیے ڈالر ذخیرے رکھنے پڑے جس کے بغیر وہ تیل نہیں خرید سکتے تھے یعنی ان کی معشیت کا پہیا پیٹرو ڈالر سے ہی چل رہا تھا۔ پھر مغربی ممالک میں سرمایا کاری کے لیے بھی ڈالروں کی ہی ضرورت تھی اور غیر ملکی اشیاء اور دیگر سازوسامان کے لیے بھی۔ اس وقت دنیا بھر کے ممالک کے مجموعی زرمبادلہ کے ذخائر کا ساٹھ فیصد حصہ ڈالر پر مبنی ہے۔
اب اگر اس میں چین, روس اور سعودی عرب کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو چین اس وقت روزانہ ایک کروڑ بیرل سے زیادہ خام تیل برآمد کرتا ہے جس کا تقریباً پانچواں حصہ سعودی عرب سے آتا ہے اور خود سعودی عرب کی تیل کی مجموعی برآمدات کا چوتھائی حصہ صرف چین کی طرف جاتا ہے۔ ان کے علاوہ بھارت, جاپان اور جنوبی کوریا بھی تیل کے بڑے خریدار ہیں۔ چین روس سے روزانہ پندرہ لاکھ بیرل تیل درآمد کرتا ہے جو چین کی کُل برآمدات کا چھٹا حصہ ہے۔ اب ظاہر ہے روس کی کوشش ہے کہ وہ چین کو زیادہ سے زیادہ تیل فروخت کرے۔
دل چسپ بات یہ بھی ہے کہ سعودی عرب کی تیل کی برآمدات کا تین چوتھائی حصہ ایشیائی ممالک کو جاتا ہے جب کہ صرف دس فیصد یورپ کو جب کہ امریکا میں روزانہ پندرہ لاکھ بیرل تیل جاتا ہے۔ کیوں کہ امریکا اب اپنی ضروریات خود اپنے تیل سے بڑی حد تک پوری کرلیتا ہے۔ اب چوں کہ امریکا تیل کا بڑا خریدار نہیں رہا اس لیے تیل پیدا کرنے والے ممالک ایشیائی منڈی کی طرف زیادہ انحصار کرتے ۔ اب روس اور سعودی عرب جیسے ممالک اس کوشش میں ہیں کہ وہ خود چین, جاپان, جنوبی کوریا اور بھارت جیسے ممالک میں تیل کی ریفائنریاں بنانے کی پیش کش کرکے تیل کے طویل مدتی معاہدے کرسکیں۔ روس نے تو پہلے ہی ڈالر کی بجائے بارٹر یا دیگر کرنسیوں میں تجارت کا اعلان کردیا ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ سعودی عرب کیا کرتا ہے۔
خود چین کے لیے تو یہ بہت اچھا ہوگا وہ چینی یوآن میں ادائیگی کر دے جو روس تو قبول کرلے گا مگر سعودی عرب اور عراق یا کینڈا جیسے ممالک کے لیے ڈالر کے علاوہ کسی اور کرنسی میں تیل بیچنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ اس دوران میں بھارت نے روس سے بھرپور فائدہ اٹھانا شروع کردیا ہے اور رعایتی قیمتوں پر تیل دھڑا دھڑ خرید رہا ہے۔ اب امریکا اس حالت میں نہیں ہے کہ وہ چین, روس یا سعودی عرب کو پیٹرو ڈالر کے استعمال پر مجبور کرسکے۔ اس وقت بھارت تیل کے صارفین میں تیسرے نمبر پر ہے یعنی امریکا اور چین کے بعد سب سے زیادہ تیل بھارت میں استعمال ہوتا ہے۔
پھر بھارت کو اپنی کھپت کا اسی فیصد حصہ باہر سے خریدنا ہوتا ہے جو وہ زیادہ عراق, سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے خریدتا ہے۔ یعنی اپنی درآمدات نصف حصہ بھارت صرف ان تین ممالک سے خریدتا ہے۔ اب تک روس کا درجہ خاصا نیچے تھا یعنی صرف دو فیصد ۔ اس صورت حال میں لگتا ہے کہ پیٹرو ڈالر کا مستقبل امریکا سے زیادہ بھارت, چین, روس اور سعودی عرب کے ہاتھ میں معلوم ہوتا ہے۔ اگر یہ چار ممالک دیگر کسی کرنسی میں تیل کا بیوپار کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں تو امریکا کو کوئی نئی چال سوچنی ہوگی جو کہ ایک اور جنگ یا كکساد بازاری کی صورت میں سامنے آ سکتی ہے۔