• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

وزیراعلیٰ بزنجو اور جام کمال میں دوریاں بڑھنے لگیں

سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان ان دنوں اسلام آباد میں سیاسی حوالے سے خاصے مصروف نظر آرہے ہیں، بلوچستان کی مخلوط صوبائی حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے رہنماوں کے ساتھ ان کی ملاقاتیں بھی جاری ہیں، یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل سنیئر صوبائی وزیر پی اینڈ ڈی ظہور احمد بلیدی نے صوبائی حکومت سے اپنی راہیں الگ کرتے ہوئے سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے قریب چلے گئے تھے۔ 

اس ہفتہ ایسی باتیں سامنے آئی کہ ایک اور صوبائی وزیر حاجی اکبر آسکانی بھی صوبائی حکومت اور وزیر اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو سے ناراض ہوگئے ہیں، جس کی تصدیق صوبائی وزیر مواصلات و تعمیرات سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے گزشتہ دنوں ایک پریس بریفنگ میں کرتے ہوئے کہا کہ ظہور بلیدی اپوزیشن کے حلقوں کو فنڈز دیے جانے پر ناراض ہوئے جبکہ اکبر آسکانی محکمہ سی اینڈ ڈبلیو نہ ملنے کی وجہ سے ناراض ہیں، نہ صرف بلکہ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ چھ لوگ وزارت اعلیٰ کا خواب دیکھ رہے ہیں۔

سابق صوبائی وزیر میر ظہور احمد بلیدی نے گزشتہ ماہ دعویٰ کیا تھاکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان بلوچستان اسمبلی کی واضح اکثریت نے عبدالقدوس بزنجو کی حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے ، وزیراعلیٰ اعتماد کا ووٹ لیں ورنہ عدم اعتماد ہوگاتو دوسری جانب سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان نے کوئٹہ میں صحافیوں سے بات چیت میں یہ کہا تھا کہ ؤ میر ظہور احمد بلیدی سے وزارت کا قلمدان واپس لیے جانے اور انہیں کابینہ سے فارغ کرنے پر وہ بحیثیت پارٹی کے صدر وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کو نوٹس جاری کریں گے، جس پر وزیراعلیٰ نےاپنے ردعمل میں حیرت کا اظہار کرتے کہا کہ مجھے معلوم نہیں جام کمال خان مجھے کس بات پر شوکاز جاری کر رہے ہیں وہ خود پارٹی صدارت سے استعفی دے چکے ہیں ان کا شوکاز دینے کا جواز پیدا نہیں ہوتا، نہ صرف یہ بلکہ اسلام آباد میں سیاسی رابطوں اور صوبائی حکومت کے حوالے سے بعض ریمارکس پر بھی وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان کو آڑئے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ہےکہ بازاروں اور سڑکوں پر باتیں کرنے سے تبدیلی نہیں آتی۔

جام کمال خان اسلام آباد میں بیٹھ کر کہتے ہیں کہ بلوچستان کے نمائندوں نے محسوس کیا تو وہ تبدیلی لائے اگر جام کمال خان کے پاس اکثریت ہے تو وہ تبدیلی ضرور لائیں جتنے دن ہمارے پاس ہیں عوام کے نمائندوں کا اعتماد اس کابینہ کو حاصل ہے حکومت چلتی رہے گی ،اگرچہ سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان اور موجودہ وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو دونوں ہی ٹھنڈئے مزاج کے حامل سیاسیتدان ہیں اور سیاسست میں بھی بلوچستان کی روایات کی پاسداری کرتے ہیں دونوں رہنماوں کا بلوچستان کی سیاست میں تجربے کے ساتھ اہم کردار بھی ہے لیکن جام کمال خان کے خلاف میر عبدالقدوس بزنجو کی قیادت میں لائی جانے والی کامیاب تحریک عدم اعتماد کے بعد پہلے جام کمال خان اور اب وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کے لب و لہجے میں سختی آئی ہے جسے سیاسی حلقوں نے بھی محسوس کیا ہے۔ 

اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے جام کمال خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ وہ اتنے اچھے ہوتے تو وزیراعلیٰ ہوتے اگر انہیں ان کے اپنے نمائندوں نے مسترد کیا تو آج وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے تبدیلی لانی ہے حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں اگر گزشتہ حکومت بہتر کام کرتی تو اسے تبدیل نہیں کیا جاتا تبدیلی اس لئے آئی کیونکہ چیزیں بلوچستان کے حالات ، روایات کے مطابق درست سمت میں نہیں تھیں صرف اجلاس ہوتے تھے کسی کا کام نہیں ہوتا تھا نہ فیصلے لئے جاتے تھے۔

ایسے میں سیاسی حلقوں کی رائے ہے کہ سابق اور موجودہ وزیراعلیٰ کے درمیان الفاظ کی جنگ سب سے زیادہ ان کی اپنی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے اور یہ بات کافی حد تک درست بھی ہے کیونکہ ایک جانب جب ملک میں سیاسی بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے اور آئندہ عام انتخابات کے انعقاد میں بھی ڈیڑھ سال سے بھی کم وقت رہ گیا ہے اور بڑی سیاسی جماعتیں آئندہ انتخابات کے لئے اب ہی سے صف بندیاں کررہی ہیں اور ملک میں جاری سیاسی بحران کے نتیجے میں اگر ملک قبل از وقت انتخابات کی طرف جاتا ہے تو پھر سیاسی جماعتوں کی شائد ان انتخابات کے لئے تیاریاں کسی حد تک ہوں لیکن بلوچستان عوامی پارٹی ایسی کسی بڑی چیلنج سے نمٹنے کے لئے ظاہری طور پر تیار نظر نہیں آتی۔ 

بلوچستان عوامی پارٹی 2018 کے انتخابات سے قبل قیام کے بعد نہ صرف قومی اور صوبائی اسمبلی میں عددی اعتبار سے صوبے سے بڑی جماعت بنی تھی بلکہ بی ائے پی اس وقت سینیٹ میں بھی بلوچستان کی نہ صرف بڑی جماعت ہے بلکہ سینیٹ ، قومی اسمبلی میں نشستوں کی تعداد کے حوالے سے ملک کی بڑی جماعتوں میں شامل ہے اور جماعت کی سینئر قیادت اب بھی یہی چاہتی ہے کہ ان کی جماعت کی یہ پوزیشن آئندہ بھی برقرار رہے تو ایسے میں سینئر قیادت کو آگئے آنا ہونا ہوگا ، پارٹی کے بانی سینیٹر سعید احمد ہاشمی اور اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر جان محمد جمالی اس حوالے سے کردار ادا کرسکتے ہین جو اس وقت تک ظاہری طور پر نظر نہیں آرہا۔ 

سینیٹر سعید احمد ہاشمی اور اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر جان محمد جمالی نہ صرف بی ائے پی کے سینیئر رہنماوں میں شامل ہیں بلکہ ماضی میں ان کا سیاسی حوالے سے متحرک کردار رہا ہے بلکہ یہ دونوں شخصیات ان ایک دو دیگر سیاسی رہنماوں میں شامل رہے ہیں جن کا بلوچستان میں حکومتیں بنانے میں اپنا مقام رہا ہے سنجیدہ سیاسی حلقوں کی رائے ہے کہ ان دونوں رہنماوں کو آگئے بڑھ کر پارٹی میں اپنا سیاسی کردار ادا کرنا ہوگا یہاں یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی طویل عرصے سے انٹرا پارٹی انتخابات اہم مسلے کو بھی اب تک حل نہیں کرپائی ہے اگر بلوچستان عوامی پارٹی کی قیادت آئندہ عام انتخابات میں بھی پارٹی کی کامیابی کے خواہاں ہیں تو انہیں انٹرا پارٹی انتخابات کے ساتھ اپنی جماعت کے قائدین کے اختلافات دور کرنے ہوں گے۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید