تخت لاہور پر عثما ن بزدا کا را ج 3سال 7ماہ بعد ختم ہوگیا۔ عثمان بزدار پنجاب میں اپنے اقتدار کے دوران صوبہ ، وسیب حتی کہ قوم کی کوئی خدمت نہ کر سکے نہ ہی اپنی پارٹی اور اسمبلی میں اپنے ساتھیوں کو مطمین کر سکے۔ عثمان بزدار کااقتدار ختم ہونے کا قصہ اس طرح ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش ہوئی اور واضح ہوگیا کہ متحدہ اپوزیشن کو اکثریتی حمایت حاصل ہے اور عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور ہو جائے گی تو متحدہ اپوزیشن کی طرف سے پنجاب اسمبلی میں بھی وزیر اعلی عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کرادی گئی۔
پنجاب اسمبلی میں عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد تحریک کا مقابلہ کرنا چاہئے تھا لیکن عثمان بزدار اسلام آباد میں جا کر بیٹھ گئے جہاں انھوں نے وزیر اعظم کو اپنا استعفا پیش کردیا اورعمران خان نے پرویز الہیٰ کو وزیر اعلیٰ کا امیدوار نامزد کردیا۔ متحدہ اپوزیشن نے وزیر اعلی پنجاب کے لئے شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شہباز کو امیدوار نامزد کردیا ،نئے وزیر اعلیٰ کے چنائو کے لئے 2 اپریل کو صوبائی اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیا گیا۔ پنجاب اسمبلی میں 371ارکان کے ایوان میں 7پارٹیوں کو نمائندگی حاصل ہے جس کےمطابق تحریک انصاف واحد اکثریتی پارٹی ہے اور اس کے ارکان کی تعداد 183، مسلم لیگ ن 165، مسلم لیگ ق 10،پیپلزپارٹی 7، راہ حق کی ایک نشست جبکہ آزاد ارکان5ہیں جن میں ایک آزاد رکن اپوزیشن میں شامل ہے۔
پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کو واضح اکثریت حاصل تھی لیکن عثمان بزدار کی سیاسی نابلوغت اور خراب گورننس کے باعث حکومت اکثریت سے محروم ہو گئی ، تحریک انصاف میں ٹوٹ پھوٹ ہو نے لگی اور پارٹی کے حصے بخرے ہوگئے اور تحریک انصاف کے بطن سے جہانگیر ترین گروپ ، عبدالعلیم خان اور چھینہ گروپوں نے جنم لیا۔ ان تمام حکومتی گروپوں نے حمزہ شہباز کی حمایت کا اعلان کردیا۔ حمزہ شہباز پیپلزپارٹی پنجاب کےدفتر ماڈل ٹائون بھی گئے ، پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کے حمایت یافتہ وزیر اعلیٰ کے امیدوار حمزہ شہباز کو اکثریتی حمایت حاصل ہوگئی۔
دوسری جانب حکومت میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار پرویز الہیٰ تنہا تھے۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس 2اپریل کو طلب کر لیا گیا جس کی صدارت ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے کی، پہلے دن اجلاس صرف چند منٹ جاری ر ہنے کے بعد ملتوی او وزیر اعلیٰ کے چنائو کے لئے اجلاس اتوار 3 اپریل کو طلب کر لیا گیا۔
پرویز الہیٰ اور حمزہ شہباز شریف کسی ایک کو جیتنے کے لئے کم از کم 186ارکان کی حمایت درکا ر تھی جس کے لئے حمزہ شہباز کو واضح اکثریت حاصل تھی۔ پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لئے اجلاس تین اپریل کو شروع ہوا جس کی صدارت ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کر رہے تھے۔
اجلاس سے قبل پریس گیلری کے ممبران صحافیوں کو اسمبلی کے اندر داخلے سے روک دیا گیا۔ اجلاس شروع ہوا تو تحریک انصاف کی خواتین ارکان اپوزیشن بنچوں کی جانب بڑھیں جس سے ہنگامہ آرائی شروع ہو گئی ، گالیاں، ہاتھا پائی، نعرے بازی کے دوران ڈپٹی سپیکر نے اجلاس 6اپریل تک اجلاس ملتوی کردیا۔ اجلاس کی کارروائی ختم ہونے کے بعد تحریک انصاف کے ارکان ایوان سے باہر نکل آئےتاہم وہ انتہائی خاموشی سے گھروں کی طرف روانہ ہو گئے، سرکاری ارکان کے چہرے اترے اور رونے والے تھے، منحرف ارکان کے لئے گالیاں دے رہے تھے، کسی قسم کی گفتگو سے اجتناب کر رہے تھے اور گھروں کو جلد سے جلد روانہ ہونے میں عافیت محسوس کررہے تھے۔ پنجاب اسمبلی کے ایوان سے وفاقی وزرا پہلے شفقت محمود اور بعد میں مونس الہی بھی باہر نکلے جس پر حیرت ہوئی کہ جب قومی اسمبلی میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ ہورہی تھی دو وفاقی وزرا کیوں پنجاب اسمبلی میں موجود تھے؟
پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلی کے حکومتی امیدوار چودھری پرویز الہیٰ ایوان میں پورے پروٹوکول سے باہر نکلے تو سنیئر سیکرٹری اسمبلی محمد خان بھٹی انھیں گاڑی تک چھوڑنے خود پہنچے۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس ختم ہونے کے ساتھ ہی یہ اطلاع بھی پہنچ گئی کہ گورنر چودھری محمد سرور کو عہدے سے برطرف کردیا گیا، 18ویں ترمیم کے بعد صوبائی اسمبلی ختم کرنے کا اختیار صرف گورنر کو حاصل ہے، لہذا وزیر اعظم عمران خان نے گورنر کو صوبائی اسمبلی ختم کرنے کی ڈکٹیشن دی جس کو انھوں نے غیر آئینی قرار دے کر ماننے سے انکار کردیا جس کے بعد انہیں صدر مملکت عارف علوی نے عہدے سے برطرف کر کے عمر سرفراز چیمہ کو گورنر بنانے کا حکم جاری کردیا۔
گورنر چودھری محمد سرور حکم نامے کے بعد اپنی ذاتی گاڑی میں سوار ہو کر گورنر ہاؤس سے اپنے گھر ڈیفنس سوسائٹی چلے گئے۔ وزیر اعلی اور گورنر کے استعفوں کے بعد ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب سنگین بحران سے دوچار ہو گیا ۔ پنجاب کے ایوان کو تالے لگا دئیے گئے، جس کے بعد متحدہ اپوزیشن کے ارکان لابی میں جمع اور دھرنا دینے کا اعلان کردیا جس میں203ارکان شامل تھے۔
اسمبلی کا اجلاس برخاست ہونے کے بعد سابق سپیکر وزیر اعلی پرویز الہیٰ نے اپنے موقف میں کہا کہ ہماری پوری تیاری تھی اور ممبران پورے تھے، وزیر اعلیٰ کا الیکشن شروع ہوا تو ہماری خواتین تحریک انصاف کے منحرف ارکان کی طرف گئیں کہ وہ تحریک انصاف سے کامیاب ہوئے لہذا حکومت بنچوں پر واپس آجائیں، لیکن اپوزیشن کے ارکان حملہ آور ہو گئے۔
تین اپریل اتوار کی شام گورنر ہاؤس میں نامزد گورنر عمر سرفراز چیمہ نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا، تقریب میں قائم قام وزیر اعلیٰ عثمان بزدار بھی موجود تھے۔ تخت لاہور پر براجمان رہنے والے جنوبی پنجاب کے عثمان بزدار اپنی وزارت اعلیٰ کے دوران سب سے زیادہ متنازع رہے ، پنجاب میں جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان گروپوں کا واحد مطالبہ تھا کہ انھیں عہدے سے ہٹایا جائے، عثمان بزدار جاتے جاتے عمران خان کو بھی ڈبوکر چلے گئے۔