سپریم کورٹ آف پاکستان (اصل دائرہ اختیار)مسٹر جسٹس عمر عطا بندیال، چیف جسٹس، جناب جسٹس اعجاز الاحسن،مسٹر جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل،مسٹر جسٹس منیب اختر،مسٹر جسٹس جمال خان مندوخیل،2022 کا سو موٹو کیس نمبر 1،(دوبارہ: آرٹیکل 5 کے تحت قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کا حکم،آئین کے تحت وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ،وزیر پاکستان)آئینی پٹیشن نمبر 3 تا 7 2022،(دوبارہ: 03.04.2022 کو قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر نے فیصلہ سنایا۔
تحریک عدم اعتماد پر اسمبلی)پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز،(PPPP) سیکرٹری جنرل کے ذریعے،رحت اللہ بابر اور دیگر،(مقدمہ پی 3/2022 میں)سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اپنے صدر کے ذریعے ،(مطبوعہ صفحہ 4/2022 میں)پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنینمائندہ ملک احمد خان کے ذریعے،(مقدمہ صفحہ 5/2022 میں)سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن،سندھ بار کونسل (P.7/2022 بنام فیڈریشن آف پاکستان بذریعہ سیکرٹری،وزارت قانون و انصاف اسلام آباد(مقدمہ 3/2022 میں،صدر پاکستان بذریعہ سیکرٹری،(مقدمہ 4/2022 میں،صوبائی ڈپٹی سپیکرپنجاب اسمبلی اور دیگر،(مطبوعہ صفحہ 5/2022 )2022 کا SMC نمبر 1 وغیرہ،فیڈریشن آف پاکستان بذریعہ سیکرٹری اسلام آباد ((Const.P.6/2022 فیڈریشن آف پاکستان سیکرٹری کے ذریعے (مقدمات P. 7/2022 میں) جواب دہندگان کی جانب سے فیڈریشن کے لیے خالد جاوید خان،اٹارنی جنرل برائے پاکستانجناب سہیل محمود، ایڈیشنل۔ اے جی پی،ایم عثمان پراچہ، ایڈووکیٹ، ماہم رشید، ایڈووکیٹ، فریال شاہ آفریدی، ایڈووکیٹ،صدر کے لیے: ایس علی ظفر، اے ایس سی، نواز چوہدری اے او آر،و وزیر اعظم کے لیے: جناب امتیاز رشید صدیقی، اے ایس سی، فیصل فرید، اے ایس سی،ایس حسنین ابراہیم کاظمی، اے ایس سی، عاطف خان ایڈووکیٹ، سکندر سلطان راجہ، چیف الیکشن کمشنر،عمر حمید خان سیکرٹری،ظفر اقبال،سیکرٹری،و محمد ارشد، ڈی جی لاء ، خرم شہزاد، اے ڈی جی لاء ،سپریم کورٹ بار ایسویسی ایشن کے لیے،SMC 1 اور Const.P.4/22)، منصور عثمان اعوان، اے ایس سی، احسن بھون، اے ایس سی (صدر)وسیم ممتاز ملک، اے ایس سی،(سیکرٹری) خاور اکرام بھٹی، اے ایس سی، رفاقت حسین شاہ، اے او آر،معاون بذریعہ، عمیر احمد، ایڈووکیٹ،اسفند یار خان، ایڈووکیٹ ،پی پی پی کے لیے،(SMC 1 اور Const.P.3/22)، فاروق ایچ نائیک، سینئر اے ایس سی، بلاول بھٹو زرداری،میاں رضا ربانی، اے ایس سی،کامران مرتضی، سینئر اے ایس سی،اعظم نذیر تارڑ، اے ایس سی،راجہ شفقت عباسی، اے ایس سی،سردار ایم لطیف خان کھوسہ، سینئر اے ایس سی،سردار شہباز علی خان کھوسہ، اے ایس سی، رفاقت حسین شاہ، اے ایس سی،بیرسٹر شیراز شوکت راجپرBAPمصطفی رمدے، ,arASCشد حفیظ، اے ایس سی,احمد جاوید، ایڈوکیٹ,اکبر خان ایڈوکیٹ, زوئی خان، ایڈووکیٹ,اے این پی کے لیے: بابر یوسفزئی، اے ایس سی,ایم شریف جنجوعہ، اے او آر,PML(N) کے لیے,,,1/2022) مخدوم علی خان، سینئر اے ایس سی,میاں شہباز شریف(اپوزیشن لیڈر(سعد ایم ہاشمی، ایڈووکیٹ,سرمد ہانی، ایڈووکیٹ، یاور مختار، ایڈووکیٹ، عمار چیمہ، ایڈووکیٹ،(مقدمہ صفحہ 5/2022)،چودھری. سلطان محمود، اے ایس سی،خالد اسحاق، اے ایس سی،اعظم نذیر تارڑ، اے ایس سی،ایس رفاقت حسین شاہ، اے او آر،مسلم لیگ کے لیے: مسٹر امتیاز رشید صدیقی، اے ایس سی،ایس حسنین ابراہیم کاظمی، اے ایس سی ، جناب احمد نواز چوہدری اے او آر،پی ٹی آئی کے لیے: بابر اعوان، سینئر اے ایس سی، اظہر صدیقی، اے ایس سی،احمد نواز چوہدری اے او آر،جے یو پی کے لیے: کامران مرتضی، سینئر اے ایس سی،قاری عبدالرشید، اے ایس سی،ڈپٹی اسپیکر، این اے: جناب نعیم بخاری، اے ایس سی،انیس ایم شہزاد، اے او آر،سندھ کے لیے،سلمان طالب الدین، اے جی،(وی ایل کراچی)جناب سبطین محمود، ایڈیشنل۔ اے جی،(وی ایل کراچی) فوزی ظفر، ایڈیشنل۔ اے جیِ(وی ایل کراچی)پنجاب کے لیے: مسٹر احمد اویس، اے جی پنجابِ بلوچستان کے لیے: جناب آصف ریکی، اے جیِِ ایم ایاز سواتی، ایڈیشنل۔ اے جیِ2022 کا SMC نمبر 1 وغیرہ۔ 4ِکے پی کے لیے: مسٹر شمائل بٹ، اے جیِ میاں شفقت جان، ایڈیشنل۔ اے جیِ عاطف علی خان، ایڈیشنل۔ اے جیِ آئی سی ٹی کے لیے: مسٹر نیاز اللہ خان نیاز ی ایڈوکیٹ جنرل ،وزارت داخلہ کے لیے: مسٹر ایم ایوب، ایڈیشنل، سیکرٹری،جناب ایم نعیم سلیم،ڈپٹی سیکرٹری،قومی اسمبلی کے لئے عبداللطیف یوسفزئی، ASC، ایم مشتاق، ایڈیشنل۔ سیکرٹری، حق نواز، ایس او، SHCBA اور SBC کے لیے،Const.P 6 اور 7/2022، صلاح الدین احمد، اے ایس سی، حیدر امام رضوی، اے ایس سی،اورانیس محمد شہزاد، اے او آر ، مقدمہ کی سماعت کی تاریخ: 07.03.2022۔حکم نامہتفصیلی وجوہات جو بعد میں درج کی جائیں ،کی بناپر اور اس میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کے تابع ہو یا بصورت دیگر ، یہ معاملات درج ذیل شرائط میں نمٹائے جاتے ہیں:ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے 03.04.2022 کو ایوان کے فلور پر دی گئی رولنگ ، جو آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کی قرار داد سے متعلق تھی (جس کیلئے اسمبلی اراکین کی مطلوبہ تعداد نے 08-03-2022 کو نوٹس دیا تھا اور جس کے سلسلے میں 28.03.2022 کو قرارداد پیش کرنے کی اجازت دی گئی تھی) ، اور رولنگ کی تفصیلی وجوہات (سپیکر کے اتفاق کے بعد جاری کردہ) کو آئین اور قانون کے منافی قرار دیا جاتا ہے اور ان کا کوئی قانونی اثر نہیں ہے ، اور انہیں کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔-2 مذکورہ بالا کے نتیجے میں یہ قرار دیا جاتا ہے کہ قرارداد ہر وقت زیر التوااور برقرار تھی اور اب بھی زیر التوااور قائم رہے گی۔-3 مذکورہ بالا کے نتیجے میں یہ قرار دیا جاتا ہے کہ تمام اوقات میں وزیر اعظم آئین کے آرٹیکل 58 کی شق (1) کی وضاحت کے ذریعے عائد کردہ پابندی کے تحت تھے اور اب بھی وہ پابند ہیں۔ اس لئے وہ کسی بھی وقت صدر کو اسمبلی کو تحلیل کرنے کا مشورہ نہیں دے سکتے تھے جیسا کہ آرٹیکل 58 کی شق (1) کے مطابق ہے۔-4 مذکورہ بالا کے نتیجے میں یہ قرار کیا جاتا ہے کہ وزیر اعظم کی طرف سے 03.04.2022 کو صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس خلاف آئین تھی اور اس کا کوئی قانونی اثر نہ تھا۔-5 مذکورہ بالا کے نتیجے میں یہ قرار دیا جاتا ہے کہ صدر کا 03.04.2022 کو اسمبلی کو تحلیل کرنے کا جاری کردہ حکم نامہ آئین کے خلاف تھا اور اس کا کوئی قانونی اثر نہیں تھا جسے کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ مزید یہ قرار دیا جاتا ہے کہ اسمبلی ہر وقت موجود تھی اور رہے گی۔-6 مذکورہ بالا کے نتیجے میں یہ قرار دیا جاتا ہے کہ صدر مملکت کے مذکورہ بالا حکم یا نئی اسمبلی کے انتخاب کیلئے عام انتخابات کے انعقاد بشمول نگران وزیر اعظم اور کابینہ تقرری کے حوالے سے کی گئی تمام کارروائی اور اقدامات کا کوئی قانونی اثر نہیں اور اسے منسوخ کیا جاتا ہے۔-7 مذکورہ بالا کے نتیجے میں وزیر اعظم ، وفاقی وزرا، وزرامملکت ، مشیران وغیرہ 03-04-2022 والی پوزیشن پر بحال قرار دئیے جاتے ہیں۔-8 یہ قرار دیا جاتا ہے کہ اسمبلی ہر وقت برقرار تھی اور 20-03-2022 کو سپیکر کی جانب سے 25-03-2022 سے بلایا گیا اجلاس بھی جاری تھا جو آئین کے آرٹیکل 53 کی کلاز (3) کے تحت اراکین کی مطلوبہ تعداد کی درخواست مورخہ 08-03-2022 کے نتیجے میں طلب کیا گیا تھا۔ تحلیل سے قبل متذکرہ بالا شرائط پر اسمبلی کی منسوخی کا کوئی قانونی اثر نہیں اور اس اقدام کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔-9 سپیکر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسمبلی کے موجودہ اجلاس کا فوری انعقاد کریں اور کسی بھی صورت میں 09-04-2022 بروز ہفتہ صبح 10:30 سے زیادہ تاخیر نہیں ہونی چاہئے ، تا کہ آئین کے آرٹیکل 95 اور رولز آف پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس اِن نیشنل اسمبلی رولز 2007 کے رول 37 (دونوں کو ملا کر پڑھا جائے) کے مطابق اجلاس کی کارروائی ہو سکے جو 03-04-2022 کو ہوتا تھی۔-
10 سپیکر آئین کے آرٹیکل 54 کے شق (3) کے تحت اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اسمبلی کو معطل نہیں کر سکتا اور اجلاس کو ختم نہیں کر سکتا، سوائے درج ذیل کے:(a) اگر قرارداد مطلوبہ اکثریت سے منظور نہیں ہوتی ہے (یعنی عدم اعتماد کی قرارداد کو شکست دی جاتی ہے) تو اس کے بعد کسی بھی وقت؛(b) اگر قرارداد مطلوبہ اکثریت سے منظور ہو جاتی ہے (یعنی عدم اعتماد کی قرارداد کامیاب ہو جاتی ہے)، تو پھر کسی بھی وقت آئین کے آرٹیکل 91 کو رول 32 (دونوں کو ساتھ مل کر پڑھا جائے) کے تحت جب وزیر اعظم کا انتخاب ہو جائے اور وہ اپنی ذمہ داری سنبھال لے۔
11،عدالت نے اسپیکر قومی اسمبلی کو 9 اپریل بروز ہفتہ صبح 10.30 بجے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے اور وزیر اعظم عمران خان کے خلاف مشترکہ اپوزیشن جماعتوں کی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے کی صورت میں یہی حکومت کام کرتی رہے گی جبکہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں اسی اجلاس کے دوران ہی فوری طور پرنئے وزیر اعظم کا انتخاب ہوگا، سپیکر اور وفاقی حکومت اس حوالے سے عدالت کی جانب سے جاری کئے گئے تمام تر احکامات پر ان کی روح کے مطابق عملدرآمد کی پابند ہوگی ۔
12ِعدالت نے قراردیاہے کہ 21مارچ کو عدالت میں سول پٹیشن نمبر 2/2022کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے وفاقی حکومت کی جانب سے جو یقین دھانی کروائی تھی اور اس حوالے سے عدالت نے جو حکم جاری کیا تھا اور برقرار رہے گاجبکہ وفاقی حکومت وزیر اعظم عمران خان کے خلاف مشترکہ اپوزیشن جماعتوں کی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لئے آنے والے تمام اراکین قومی اسمبلی کے راستے میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ یا انکے کام میں کسی بھی قسم کی کوئی مداخلت نہیں کرے گی ، عدالت نے قرار دیاہے کہ یہی حکم تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں نئے وزیر اعظم کے انتخاب کے موقع کے لئے بھی موثرہوگا۔
عدالت نے واضح کیا ہے کہ پارٹی پالیسی سے انحراف کی صورت میں منحرف رکن کے خلاف قانونی کارروائی سے متعلق آئین کا آرٹیکل 63اے موثر رہے گا اور اس حکمنامہ کے اس پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوں گے ۔
13ِعدالت نے قرار دیاہے کہ مذکورہ بالا تمام تر احکامات پر عملدرآمد سے قبل ایس ایم سی 1/2022میں 3اپریل کووزیر اعظم اور صدر کے تمام تر احکامات اس عدالت کی اجازت سے مشروط ہوں گےکا سپریم کورٹ کا جاری کیا گیاحکمنامہ بھی برقرار رہے گاچیف جسٹس ، جج ،جج ،جج ،جج ،اسلام آباد ،7اپریل 2022رپورٹنگ کے لئے منظور نہیں کیا گیا ہے۔