• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر یاسمین شیخ

یوں تو عام دِنوں میں بھی ہر فرد، خصوصاً خواتین اور بچّوں کو طرح طرح کے جِلدی مسائل کا سامنا رہتا ہے، لیکن گرمیوں میں یہ مسائل کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتے ہیں۔ عمومی طور پر مئی کے آخری ہفتے سے ماہِ جون تک شدید گرمی پڑتی ہے اور انہی دِنوں میں بجلی کا بحران بھی جنم لیتا ہے۔ گرمی کی شدّت کی وجہ سے جسم سے بے تحاشا پسینہ خارج ہوتا ہے، جس میں شامل نمکیات جِلد پر چپک کر جِلد کو کاٹنے لگتے ہیں۔ 

یہ مسئلہ اُس وقت شدّت اختیار کرلیتا ہے، جب ملبوسات چُست یا پھر مصنوعی ریشوں کے بنے ہوں۔ جیسے ٹائٹس، اسکن فیٹڈ جینز وغیرہ۔ اس تکلیف سے دوچار افراد کی جِلد، ران اور گھٹنے کے پیچھے سے سُرخی مائل ہو کر جلن اور بے چینی کا باعث بنتی ہے۔ اگر بروقت اس تکلیف کا تدارک سوتی ملبوسات استعمال کرکے نہ کیا جائے تو زخم، پھوڑے یا پھنسیاں بھی بن سکتے ہیں۔ ہمارے یہاں ایک مسئلہ اور بھی ہے کہ ’’جان جاتی ہے، تو جائے، مگر کسی صُورت فیشن نہ چھوڑا جائے۔‘‘ 

اب اس قدر چُست کپڑوں کے ساتھ چھوٹے بچّوں کو پیمپر پہنانا بھی ضروری ہے۔ معصوم بچّوں کی حالت اُس وقت غیر ہو جاتی ہے، جب حوائجِ ضروریہ کے بعد پیمپر بدلنے میںتاخیر کی جائے۔ گرمیوں میں بڑی تعداد میں ایسے بچّے علاج کے لیے لائے جاتے ہیں، جن کی مائوں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ ان کے بچّے کو پیشاب کی جگہ پر سخت خارش رہتی ہے۔ عام طور پر بچّے کو جب پیشاب کروانے کی کوشش کی جاتی ہے، تو وہ رو رو کر آسمان سَر پر اٹھا لیتا ہے۔ یہ ان بچّوں کی بات ہو رہی ہے، جو بول کر اپنی تکلیف کا اظہار کر لیتے ہیں۔ وگرنہ چھوٹےبچّے تو صرف کروٹیں لے کر یا رو کرہی اظہار کرتے ہیں۔ 

اکثر ماؤں کو لگتا ہے کہ بچّہ بھوک سے رو رہا ہے، حالاں کہ مسئلہ کچھ اور ہوتا ہے۔دراصل پیشاب میں شامل یوریا اور دیگر اجزاء بچّوں کی پیشاب کی نالی میں جا کر جراثیم میں اضافے کا سبب بن جاتے ہیں۔ نیز، ایک مخصوص قسم کا فنگس بھی خارش کی شدّت بڑھا سکتا ہے۔ اگر علاج نہ کروایا جائے، تو پیشاب کی نالی متوّرم ہوجاتی ہے، لہٰذا بچّوں کو ان مسائل سے محفوظ رکھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انہیں سوتی ملبوسات پہنائے جائیں، مگر افسوس کہ فیشن کی دوڑ میں آج کل مارکیٹ میں نہ ڈھنگ کا کُرتا ملتا ہے، نہ پاجاما۔ 

بہتر ہوگا کہ بچّوں کے لیے جو ملبوسات خریدیں، سلوائیں یا خود سلائی کریں وہ ململ کے ہوں۔ چھوٹے بچّے کو پوٹی ٹرینڈ بھی کریں کہ جتنی اچھی طرح وہ اپنے پاٹ پر بیٹھ کر فارغ ہوتا ہے، پیمپر میں نہیں ہو سکتا۔ یوں پیمپر کا استعمال کم ہونے سے پیشاب کی تکلیف بھی ختم ہوجائے گی۔ عام طور پر ہفتہ، دس دِن تک ادویہ اور مرہم کے استعمال سےبچّہ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ البتہ ملبوسات سوتی ہی استعمال کریں۔

ویسے، آفرین ہے، پہلے زمانے کی مائوں پر، جنہوں نے آدھا تا ایک درجن بچّے پیمپر پہنائے بغیر پالے اور بچّوں کو موسم کے لحاظ سے کپڑے خود سلائی کرکے یا سلوا کر پہنائے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس دَور کی خواتین لفظ ’’الرجی‘‘ سے واقف ہی نہ تھیں۔ اسی طرح بعض خواتین کو گرمیوں میں باورچی خانے میں کام کرتے ہوئے، خصوصاً جب چولھے کے سامنے کھڑی ہوں، تو بہت زیادہ پسینہ آتا ہے، لہٰذا انہیں چاہیے کہ ڈھیلے ڈھالے سوتی ملبوسات استعمال کریں۔ اگر گرمی دانے ظاہرہوں، تو ٹالکم پاؤڈر لگالیں۔ 

علاوہ ازیں، برسات کے پانی میں نہانے سے بھی گرمی دانوں پر خوش گوار اثر پڑتا ہے۔ اگر جسم میں خارش محسوس ہو، تو کسی تیز نوکیلی چیز سے جِلد کو نہ کھجائیں کہ اس طرح زخم بن کر داغ رہ جاتا ہے۔ ذیابطیس میں مبتلا افراد موسمِ گرما میں اپنے مرض کو کنٹرول میں رکھیں کہ اس کی وجہ سے دانے اور پھوڑے ٹھیک ہونے میں وقت لگتا ہے۔

مَردوں کو دِن بَھر سخت دھوپ اور گرمی میں بسوں میں سفر کر کے کام پر جانا ہوتا ہے، لہٰذا بہتر ہوگا کہ وہ سوتی قمیص، شلوار یا کاٹن کی پتلون جو ذرا ڈھیلی ہو، استعمال کریں۔ نیز، موزے بھی سوتی ہوں، جو روز تبدیل کیے جائیں، کیوں کہ فنگس کے انڈے پسینے اور گرمی سے زندہ ہو کر خارش کا سبب بن جاتے ہیں۔ جن دِنوں سخت گرمی پڑرہی ہو، تو کسی دوسرے کے جوتے ہرگز استعمال نہ کریں کہ اگر کسی کو فنگس ہے، تو اُس سے باآسانی دوسرا بھی متاثر ہوجاتا ہے۔ 

ہاں، رات کے وقت جب موسم نسبتاً ٹھنڈا ہو، تو کسی تقریب وغیرہ میں دو تین گھنٹوں کے لیے ریشمی کپڑے پہنے جا سکتے ہیں۔ جن بچّیوں یا خواتین کے سَر میں جوئیں ہوں، موسمِ گرما میں اُنہیں چاہیے کہ روزانہ باریک کنگھی استعمال کریں۔ اگر چھوٹے بچّوں یا بچّیوں کا سَر جوئوں سے بَھرا ہو تو چُھٹیوں میں گنجا کروا دیں۔ جوئوں کا شیمپو بہت زیادہ استعمال کرنے سے اجتناب برتیں۔ مچھر دانی استعمال کریں یا ممکن ہو تو کھڑکیوں، دروازوں میں جالی لگوالیں، تاکہ مچھروں سے بچا جائے۔ (مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ جِلد ہیں اور انکل سریا اسپتال میں خدمات انجام دے رہی ہیں)