• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاستدان خود بات کریں، ہمیں اس میں نہ دھکیلیں، اسٹیبلشمنٹ

اسلام آباد (انصار عباسی) اسٹیبلشمنٹ نے سیاست دانوں کو واضح پیغام دیا تھا کہ وہ خود ایک دوسرے سے بات کریں، اسٹیبلشمنٹ کو اس میں نہ دھکیلیں۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے این آر او نہیں مانگا لیکن 90 روز میں انتخابات کے لئے اپوزیشن کو راضی کرنے کا کہا تھا۔ جب کہ اسٹیبلشمنٹ نے سیاست دانوں کو کہا کہ وہ سیاسی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرسکتے۔ 

تفصیلات کے مطابق، وزیراعظم عمران خان نے جمعے کی رات کو اپنے کچھ وزراء کو اسٹیبلشمنٹ کے کچھ اہم افراد کے پاس بھیج کر اس ضمن میں مدد طلب کی تھی کہ وہ اپوزیشن کو وزیراعظم کے مستعفی ہونے پر قبل از وقت انتخابات کے لیے راضی کرنے میں مدد کریں لیکن انہیں بتایا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ سیاسی امور میں مداخلت نہیں کرسکتی اور انہیں تجویز دی گئی کہ سیاست دانوں سے خود ہی مل کر مسائل حل کریں۔ 

ذرائع کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے اہم فرد نے انہیں کہا کہ سیاست دانوں کو آپس میں بات کرنی چاہئے، ہمیں اس معاملے میں شامل نہ کیا جائے۔ باوثوق ذرائع نے دی نیوز کو تصدیق کی ہے کہ کچھ وفاقی وزراء نے اسٹیبلشمنٹ کے ایک اہم رکن سے ملاقات کی تھی لیکن اس نے دو ٹوک انداز میں اس بات کو مسترد کردیا کہ عمران خان اپنے لیے این آر او لے رہے تھے۔

تاہم، اپوزیشن ذرائع کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے کچھ اہم ارکان نے وزیراعظم عمران خان سے بنی گالہ میں ملاقات کی۔ اس ملاقات میں اپوزیشن ذرائع کے خیال میں وزیراعظم نے اسٹیبلشمنٹ سے یہ ضمانت طلب کی تھی کہ اگر وہ استعفیٰ دیتے ہیں تو مستقبل کی حکومت (اپوزیشن جماعتوں کی) ان کے اور ان کی حکومت کے خلاف نیب مقدمات نہیں بنائے گی۔ 

کئی صحافیوں نے بھی سوشل میڈیا پر ہفتے کی رات یہی دعویٰ کیا۔ لیکن باوثوق ذرائع نے اس نمائندے کو بتایا ہے کہ یہ بالکل غلط بات ہے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے اہم رکن نے وزیراعظم سے جمعے کی رات بنی گالہ میں ملاقات نہیں کی بلکہ کچھ وزراء نے ہفتے کو راولپنڈی میں اہم اسٹیبلشمنٹ رکن سے ملاقات کی اور ان سے اس ضمن میں مدد طلب کی کہ وہ وزیراعظم کے مستعفی ہونے پر اپوزیشن کو 90 یوم کے اندر انتخابات کے لیے راضی کریں۔ 

وہاں کسی قسم کے این آر او یا عمران خان کے خلاف کسی قسم کا کیس بنائے جانے سے متعلق کوئی ضمانت طلب نہیں کی گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے وزراء کو کہا کہ اسٹیبلشمنٹ ، پی ٹی آئی اور اپوزیشن کے درمیان ہونے والے کسی سیاسی تنازع میں مداخلت نہیں کرے گی۔

انہوں نے وزراء کو کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دور رکھا جائے اور سیاسی جماعتوں سے اختلافات خود حل کریں، اس ضمن میں سیاست دان آپس میں بات کریں اور ہمیں اس معاملے میں شامل نہ کیا جائے۔ 

اس سے قبل حکومت کی درخواست پر اسٹیبلشمنٹ پہلے وزیراعظم سے ملی تھی اور پھر اپوزیشن سے ملاقات کی تھی تاکہ دونوں کے درمیان اتفاق رائے میں مدد کی جائے تاکہ سیاسی استحکام قائم ہوسکے۔ تاہم، انہیں اس وقت حیرانی ہوئی کہ جب وزیراعظم نے ایک ٹی وی چینل کو بتایا کہ اسٹیبلشمنٹ نے انہیں اپوزیشن کا پیغام پہنچایا ہے کہ قبل ازوقت انتخابات کروائے جائیں۔ 

وزیراعظم کے دعویٰ کے جواب میں اسٹیبلشمنٹ نے انہیں اپوزیشن کی جانب سے تین پیشکشیں کیں۔ تاہم، اسٹیبلشمنٹ نے واضح کیا کہ اسٹیبلشمنٹ نے اپوزیشن کی جانب سے کوئی پیشکش نہیں کی تھی۔ بلکہ سول حکومت نے اعلیٰ حکام کو فون کیا تھا اور جاری سیاسی صورت حال پر بات کرنے کا کہا تھا۔ 

اس موقع پر اسٹیبلشمنٹ نے وزیراعظم سے ملاقات کے بعد اپوزیشن رہنمائوں سے ملاقات کی تھی اور حکومتی پیش کش ان کے سامنے رکھی تھی کہ وزیراعظم مستعفی ہوں گے اور قومی اسمبلی کو اس صورت تحلیل کریں گے جب اپوزیشن تحریک عدم اعتماد واپس لے گی۔ 

اپوزیشن رہنمائوں کو بتایا گیا کہ اگر وہ متفق ہوں تو ملک کو ممکنہ سیاسی بحران سے چھٹکارا دلایا جاسکتا ہے۔ تاہم، اپوزیشن کسی بھی صورت تحریک عدم اعتماد واپس لینے کو تیار نہیں تھی۔ اب اپوزیشن کی جانب سے بھی آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں اور انہوں نے بھی اسٹیبلشمنٹ سے مطالبہ شروع کردیا ہے کہ وہ آگے آکر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی مسائل حل کرائیں۔

اہم خبریں سے مزید